Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

60 اور 90 کی دہائی کے درمیان پیدا ہونے والے ہم انسان

کیا مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام کو پھیلایا تھا؟

ہمارا اسلام کتنا خوبصورت ہے

60 اور 90 کی دہائی کے درمیان پیدا ہونے والے ہم انسان

جتنے لوگ 1960سے 1990 کے درمیان پیدا ہوئے ہم انسانوں کو جنریشن ایکس کہا جاتا پےکہتے ہیں دنیا میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ تبدیلیاں جنریشن ایکس نے ہی دیکھیں ہیں وی سی آر کی آمد سے لیکر اسکی ناپیدی تک آڈیو کیسٹ سے لیکر یو ایس بی تک،بلیک اینڈ وائٹ نشریات سے رنگین ڈیجیٹل سمارٹ ٹی وی تک،ڈائل گھما کر ملانے والےپرانے ٹیلیفون سے لیکر جدید ترین سمارٹ فون تک، پتنگ بازی سے لیکر ڈرون جہاز اڑانے تک، بلیک اینڈ وائٹ تصویروں سے لیکر ہائی ڈیفینیشن موبائل کیمرہ لئے امیجز تک، اپنے سینوں میں عروج و زوال تغیر و تبدیلی کی ہزاروں داستانیں چھپائے ہوئے انسانوں کی یہ جنریشن بڑی قیمتی ہےجو جنریشن ایکس میں نہیں آتے وہ سب کبھی جنریشن ایکس کے پاس بیٹھ کر ماضی کی یادیں حالات کی تبدیلیاں اور وقت کے تغیرات کریدیں انکو بہت کچھ نیا اور حیرت انگیز سننے جاننے سمجھنے کو ضرور ملے گا
ہم سب میں سے جو ایکس جنریشن میں سے ہیں بہت قیمتی ہیں.آج دیکھتے ہیں ہم میں سے وہ کون ہیں جو یکس جنریشن میں شامل ہیں اپنے خیالات کا اظہار کریں. تاکہ آئندہ آنے والے جنریشن تک ہمارے آزمودہ تجربات سے انہیں محفوظ کیا جاسکے۔ نامعلوم مضمون نگار اسی کے دہے کے ابتدائی دنوں کا اپنے تجربہ کا ایک واقعہ ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔ ہمارے کالج کے پروفیسر ان ایام مشہور تھری ان ون ٹیب ریکارڈر ریڈیو خریدنا چاہتے تھے چونکہ ان ایام بھٹکل خلیج میں مصروف معاش بھٹکلی احباب کی وجہ سے چھٹیوں میں آتے ہوئے جاپان کی مختلف جدت پسند چیزیں لے آتے ہوئے

واپس جاتے وقت بیچ جانے کی وجہ سے، شہر بھٹکل فارئین گوڈس کے لئے منی دوبئی کی حیثیت مشہور ہوگیا تھا۔ ہمارے کسی عزیز کے لائے تھری ان ون ٹیپ رہکارڈر کو لے کر ہم پروفیسر صاحب کے گھر گئے۔ اور تھری ان ون ٹیپ ریکارڈر کی عملی کارکردگی بتانے کے لئے ہمارے آپس میں ہوئی گفتگو کو ریکارڈ کر انہیں سنائی تو فرط حیرت سے اس وقت پروفیسر صاحب اپنی ہی ریکارڈیڈ گفتگو کو سن کر کھڑے ہوتے ہوئے، اپنے حیرت و استعجاب کا اظہار جس ڈھنگ سے کیا آج تک ان حسین لمحات کو ہم بھول نہیں پائے ہیں۔ابھی حال ہی ان پروفیسر صاحب کا انتقال ہوچکاہے

اس لئے رمضان المبارک کے آخری عشرے کے ان لمحات میں، انکے ساتھ ہی ساتھ اب تک ہمیں چھوڑ اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہتے اس فانی دنیا سے اس ابدی دنیا کی طرف کوچ کر چلے جانے والے تمام اساتذہ کرام کی مغفرت کے لئے دعا کرنا ضروری سمجھتے ہیں اس لئے کہ انہیں کی کاوشوں سے آج ہم میں اتنی صلاحیت ہم پاتے ہیں کہ وقتا فوقتا کسی بھی موضوع پر کچھ نہ کچھ لکھتے ہوئے ہمارے ہزاروں پڑھنے والوں کو ہم تنگ کیا کرتے ہیں۔ ابن بھٹکلی

Exit mobile version