’’ملکی سیاست کے بدلتے رنگ‘‘
تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100
سیالکوٹ کے حلقہ این اے 75، کراچی کے حلقہ این اے 249 کے بعد پی پی 84 خوشاب کے ضمنی انتخابات میں یکے بعد دیگرے پی ٹی آئی کے امیدوار وں کی شکست نے ملک کے کپتان اور دیگر حکومتیس قائدین کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے،کیوں کہ پی ٹی ائی 2018 کے جنرل الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی پارٹی بن کر ابھری تھی،لیکن اسکے باوجود کپتان نے چند روز قبل اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ 2018 کے جنرل الیکشن میں ان سے ٹکٹوں کی تقسیم میں غلطیاں ہوئی تھیں ،یعنی کے جن امیدواروں کو ٹکٹ دئیے گئے تھے،ان میں سے اکثر نااہل تھے جو کامیاب یا ناکام ہوئے، اسی وجہ سے کپتان کو حکومت بنانے کے لئے دوسری سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرنا پڑا،کپتان کو علم ہونے کے باوجود کے جنرل الیکشن میں ان کی پارٹی سے ٹکٹوں کی تقسیم میں غلطی ہوئی تھی، موصوف نے ضمنی الیکشن میں بھی ایسے امیدوار کھڑے کئے جو کامیاب نہ ہوسکے،
بلکہ کراچی میں تو پی ٹی آئی کا امیدوار توقع سے بہت کم ووٹ لے پایا،اورپھر سیالکوٹ کی طرح پی ٹی آئی کی طرف سے دھاندلی کا نعرہ مستانہ بلند ہوا،لیکن پی پی 84کے الیکشن میں ن لیگ کی جیت پر حکومت کی طرف سے ابھی دھاندلی کا کوئی الزام سامنے نہیں آیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے خوش دلی سے پی پی 84کے نتائج تسلیم کرلئیے ہیں،یہاں پی ٹی آئی کواس بات کا ضرور پتہ چلانا ہوگا کہ 2018کے الیکشن میں ملک وارث کلو 6ہزار ووٹوں کی برتری سے جیتے تھے مگر 5مئی 2021کے ضمنی الیکشن میں ان کا بیٹا معظم کلودس ہزار سے زائد ووٹوں کی لیڈ سے جیتا ہے ،
کپتان کو یہ بھی تحقیق کرانا ہوگی کہ کیا پی پی 84کی شکست کی وجہ ٹکٹ تبدیل کرنے یا مقامی قیادت میں اختلاف کے باعث پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے سے تو نہیں ہوئی؟ کیونکہ 2018کے جنرل الیکشن میں این اے 92،اور پی پی 84کا ٹکٹ گل اصغربگھور کو دیا گیا تھا، گل اصغر بگھور نے این اے 92سے الیکشن لڑنے کیلئے اپنی انتخابی کمپئین شروع کی تو پی پی 84کا ٹکٹ سردار شجاع خان بلوچ کو دے دیا گیا،اور پھر اچانک تبدیلی کی ہوا چلی اور گل اصغربگھور سے این اے 92کا ٹکٹ واپس لیکر ملک احسان اللہ ٹوانہ کو دے دیاگیا،جس پر گل اصغربگھور بگھور نے پارٹی سے بغاوت کرکے این اے 92سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور چالیس ہزار ووٹ حاصل کئے اس کے باوجود نا صرف احسان ٹوانہ جیت گئے،
بلکہ پی پی 84کے سوا خوشاب کی تمام ننشتیں پی ٹی آئی جیتی تھی، پی پی 84پر ملک وارث کلو 6ہزار ووٹوں سے جیتے تھے،ملک وارث کلو کی وفات کے سے خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن نے وارث کلو کے بیٹے معظم کلو کو ٹکٹ دیا،جبکہ پی ٹی آئی نے گل اصغربگھور کو ٹکٹ دیا جو 2018 کے جنرل الیکشن کی طرح اپنی انتخابی مہم زوروں سے شروع کیے ہوئے تھے کہ ایم این اے احسان ٹوانہ نے زرائع کے مطابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی وساطت سے اس دن گل اصغربگھور سے ٹکٹ واپس لے کر سردار علی حسنین بلوچ کو دلوادیا
جس دن امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ ہو رہے تھے، جس پر حلقہ کی بگھور برادری نالاں ہوگئی کہ ان سے پی ٹی آئی نے دوسری بار ٹکٹ دے کر واپس لیا ہے ،جو ان کی برادری کی تضحیک ہے،زرائع کہتے ہیں کہ بگھور برادری اکثریت نے پی ٹی آئی کی بجائے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو سپورٹ کیا،شاید یہی وجہ ہے حالیہ ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کے جنرل الیکشن کی نسبت ضمنی الیکشن میں ووٹوں کی برتری بڑھ گئی، 2018 کے الیکشن میں بغاوت کرکے الیکشن لڑنے کے باوجود پی ٹی آئی نے گل اصغربگھور کے خلاف پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کوئی ایکشن نہ لیا،بلکہ گل اصغربگھور کو ضلع خوشاب کی ٹاسک فورس کا چیئرمین بنادیا گیا تھا، اب کی بار گو کہ پارٹی نے دوسری بار گل اصغربگھور بگھور کو ٹکٹ دے کر واپس لے کر زیادتی کی، لیکن بگھور برادری نے ن لیگ کو سپورٹ کرکے اس کا خوب بدلہ چکایا۔
پی پی 84کے ضمنی الیکشن کے نتائج کی توجہ طلب بات تحریک لبیک کے امیدوار کو ملنے والے 55 سو ووٹ ہیں جو جنرل الیکشن کی نسبت ضمنی الیکشن میں سات ہزار کے قریب کم ہوئے، اس کی کیا وجہ ہے اس کے محرکات کا پتہ چلانا کالعدم تحریک لبیک کی قیادت کا کام ہے،لیکن آزاد امیدوار امجد گجر کا محدود الیکشن کمپین کرکے ساڑھے آٹھ ہزار ووٹ لینا اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ اگر موصوف آئندہ الیکشن میں کسی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو مدمقابل امیدوار کو ٹف ٹائم دے پائیں گے۔
یہاں پیپلز پارٹی کیلئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پی پی 84 کے ضمنی الیکشن میں ملک کی تیسری بڑی پارٹی کہلانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو 229 پولنگ اسٹیشنوں سے 235 ووٹ ملے ہیں۔ جو سوشل میڈیا پر زیر بحث بنے ہوئے ہیں اور اس پر طرح طرح کے دلچسپ فقرے لکھے جارہے ہیں ایک دل جلے نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی ضلع خوشاب اور سرگودھا ڈویڑن کی قیادت کو کراچی طلب
کرکے اتنے زیادہ ووٹ حاصل کرنے پر انعام واکرام سے نوازیں، اسطرح پیپلز کو صوبائی حلقہ سے ملنے والے کل 235 ووٹ قیادت کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں، اور انہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس صورت حال پر پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے خفت مٹانے اور پارٹی کا دفاع کرتے ہوئے کہاہے کہ پیپلز پارٹی نے پی پی چوراسی کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کو سپورٹ کیا، یہاں شاید قمر زمان کائرہ یہ بھول گئے کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے الگ ہوچکی ہے اور پی ڈی ایم کے عہدے بھی چھوڑ چکی ہے،اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی طفل مکتب قیادت ایک دوسرے پر اتنا برس رہی ہے کہ دونوں جماعتوں کے بڑوں کو بار بار مداخلت کرنا پڑ رہی ہے۔
سو بات کہاں سے کہاں نقل گئی بات ہورہی تھی ضمنی انتخابات میں برسر اقتدار جماعت پی ٹی آئی کی یکے بعد دیگرے شکست کی جو کہ ملکی سیاست کے بالکل برعکس ہے کیونکہ ماضی میں اکثریت ضمنی الیکشن میں برسر اقتدار جماعت کامیاب ہوتی ہے لیکن 2021کے ضمنی انتخابات کے نتائج حکومت کے لئے کارآمد ثابت نہیں ہو رہے، جس کی وجہ شاید ملک میں بڑھتی مہنگائی،بیروزگاری،لاقانونیت،اور شہری و دیہی علاقوں میں عوام کو بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی ہے،کیونکہ کپتان بھی ماضی کے سیاستدانوں کی طرح عوام کو جو سہانے خواب دکھا کر اقتدار میں آئے تھے،
مگر موصوف ایک بھی وعدہ پورا نہیں کرپائے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور اقتدار میں مہنگائی بے روزگار ی کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث پی ٹی آئی کو یکے بعد دیگرے ضمنی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کپتان جی،اگر ملک میں مہنگائی بے روزگاری اسی طرح رہی تو پھر آئندہ انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کا حال بھی پی پی چوراسی کے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی طرح کا ہوگا، اسلئے کپتان جی اب بھی وقت ہے کہ زخیرہ اندوزوں،اور مافیازکے ساتھ مہنگائی پر کنٹرول کرنے کیلئے آہنی ہاتھ استعمال کریں، اور اشیاء خوردونوش مہنگے داموں بلیک میں فروخت کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹیں ورنہ کپتان جی۔ تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں؟