معاشرہ اور ہم 297

معاشرہ اور ھم

معاشرہ اور ھم

تحریر:آمنہ مرید
معاشرہ کسے کہتے ہیں۔۔۔؟؟؟ انسانوں کا مجموعہ معاشرہ کہلاتا ہے۔ یعنی انسانی زندگی کے تمام عوامل ،طور طریقے،رہن سہن ،خوراک لباس اور دیگر تمام ضروریات ِ زندگی ہی ایک معاشرہ یا ایک تہذیب کو تشکیل دیتے ہیں۔ یعنی معاشرہ انسان کے عوامل سے ہی وجود میں آتا ہے۔
آج کل جس شخص کو دیکھو وہ معاشرہ کے بارے میں بات کرتا نظر آتا ہے اور ہرایک کو اپنی نقطہ نظر سے معاشرے میں خرابیاں نظر آتی ہیں مگر جب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ معاشرہ ہم ہی تشکیل دیتے ہیں ہمارے اطوار ،ہمارے افعال اور ہمارا وجود ہی معاشرہ ہے تو پھر ہم اپنی غلطی کو معاشرے کے سر کیسے ڈالیں اور کیوں ڈالتے ہیں؟؟
تو جس دن ہم راہِ راست پر آگئے معاشرہ کو راہِ راست پر لانا نہیں پڑے گا بلکہ وہ خود راہ راست پر آجائے گا۔۔۔تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی غلطی کو مان کر اس کی اصلاح کریں تا کہ ہم اور ہما رہ معاشرہ انسانیت سے مزین معاشرہ بن سکے ۔ لیکن اگر ہماری حالت کا اندازہ لگائیں تو ہم آج کل کچھ ایسے دور میں سانس لے رہیں ہیں جہاں ہم نے آسمان پر پرندوں کی طرح اُڑنا سیکھ لیا ،سمندر میں مچھلیوں کی طرح تیرنا سیکھ لیا مگر افسوس کہ انسان بن کے زمین پر رہنا نہیں سیکھا مانتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ یہ اُڑنا یہ تیرنا ہماری ضرورت ہے مگر یہ انسانیت اور معاشرہ کا امن بھی ہماری ہی ضرورت ہے کسی اور کی نہیں کیونکہ
“یہ معاشرہ ہم سے ہے اور ہم اس معاشرے سے”مشہور فلسفی ابن طفیل ایک دن خوش ہوکر لوگوں کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ “اے لوگو!میں نے معاشرہ کے خوش و خرم رہنے کا رازپا لیا ہے؟؟؟ایک دوست نے سوال کیا کہ وہ کیا؟؟تو کہنے لگا کہ ” اس کائنات کی ہر شئے دوسرے کے لئے ہے۔ اگر ہم بھی دوسروں کے لئے جینا سیکھ لیں تو ہم بھی خوش و خرم رہ سکتے ہیں”مثلاً ؛آپ درخت کو دیکھ لیں وہ کبھی اپنا پھل خود نہیں کھاتا، پھولوں کو دیکھ لیں وہ کبھی اپنی خوبصورتی اور خوشبو اپنے لئے استعمال نہیں کرتا، یہ سب رنگینیاں اور خوشبو دوسروں کے لئے ہے۔

تو ہمیں بھی ایک بے لوث سوچ پیدا کرنی ہوگی۔ ہمیں بھی رنگ ،نسل ،ذات ،زبان اور قومیت سے بالا تر ہو کر اپنی سوچ کو مثبت راہ دکھانا ہوگی تو اس صورت میں ہی ہم ایک خوبصورت زندگی اور خوشگوار انسانی تعلقات اور معاشرہ کو جنم دے سکیں گے۔اس مقصد کے لئے ہمارے معاشرے کے ہر مکتبہ فکر کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا مگر صرف احساس ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس پر عمل کر کے دکھانا ہو گا by تب جا کہیں ہم اپنی آئندہ نسل کے لئے ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دے پائیں گے۔
والدین کو اپنی اولاد پر نظر رکھنی ہوگی، ان کو اچھے برے کی تمیز سکھانا ہوگی،ہمارے مذہبی اور ملکی اقدار کی تعلیم دینا ہوگی اولاد کا حق ہے کہ والدین ان کی راہنمائی کریں صرف ان کے لباس وخوراک کا انتظام کافی نہیں ہوگا کیونکہ ہم میں اور دیگر حیوانات میں اسی تعلیم کا فرق ہے کہ ان کے والدین اپنی اولاد کے لئے مکان اور خوارک کا بندوبست کرتے ہیں جبکہ ہمیں اپنی اولاد کے تعلیم کا بھی خیال رکھنا ہوگا وگرنہ معذرت کے ساتھ،اساتذہ کا کردار انتہائی قابل قدر ہونا چاہئے

مگر معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں استاد کا کردار صرف کتاب تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے وہ استاد کہاں ہیں اب جو طلبہ کو اپنا اولاد جانتے تھے اور انہیں اساتذہ کے لئے روحانی باپ کا درجہ آیا جو کہ حقیقی باپ سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ ایک استاد معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے مگر جب وہ طلبہ کو اپنی اولاد سمجھے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہمارے موجودہ دور میں نام نہاد پروفیشنلزم کا ایسا دور ہے جہاں ڈگری کی قدر ہے ہنر و قابلیت کی نہیں۔ ایک قابل شخص یوں ہی ضائع ہو جاتا ہے مگر ہم پروفیشنلزم کی ناک پر مکھی بیٹھنے نہیں دیتے ۔ایسے پروفیشنلزم کا کیا فائدہ جو آپ کے بچے کی درست تربیت نہ کر سکے۔
آج کے معاشرے کو ہمیں اس زاویے سے بھی دیکھنا ہوگا کہ آج کا معاشرہ انتہائی تیز رفتار مواصلاتی نظام سے جڑا ہوا ہے ۔جہاں ایک روایتی مواصلاتی نظام کے ساتھ ساتھ غیر روایتی مواصلاتی نظام بھی ضم ہو چکا ہے جس کا اثر روایتی نظام پر اور ہمارے معاشرتی نظام پر پڑ چکا ہے تو اس سوشل میڈیا کو بھی ہمیں نظر میں رکھ کر اس کو بطور’ ِ ہتھیار ِ امن’ استعمال کرنا ہوگا کیونکہ ہماری نئی نسل نے اس کو ہر حال میں استعمال کرنا ہے ہی تو کیو ں نہ ہم اس کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر لیں ۔
اس کے ساتھ ہمیں معاشرے کی بہترین تشکیل کے لئے بطور نمونہ اور قابل استعمال مثال پیش کرنی ہوگی تواس کے لئے ہم یو رپ و امریکہ کی مثال کیوں دیں جب کہ ہمارے پاس ریاست مدینہ کی مثال موجود ہے ۔یقین جانیں کہ اگر ہم ریاست مدینہ کے قوانین پر عمل کرنا شروع کردیں تو یہ معاشرہ ایک ‘جنت نظیر معاشرہ’ ہوگا ۔
لیکن اس مقصد کے لئے ہمیں دوسروں کو کوسنےکے بجائے اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا اپنی سوچ بدلنی ہوگی کیونکہ دنیا کا کوئی انقلاب آپ کی ذات نہیں بدل سکتا اگر آپ اپنی ذات کو بدل سکتے ہیں تو آپ دنیا کے طاقتور انسان ہیں کوئی آپ کونہیں ہرا سکتا۔دوسرے نمبر پر اپنے اخلاق بنائیں کیونکہ دنیا کو اخلاق سے زِیر کیا جاسکتا ہے تیر و تلوار سے نہیں۔
تو آئیں کہ ہم عہد کریں کہ یہ معاشرہ ہمارا ہے ۔یہ تہذیب ہماری ہے ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ہم ہی اس معاشرے میں مثبت تبدیلی لائیں گے اور یہ تبدیلی اپنی ذات سے شروع کریں تب ہی کہیں ہم کسی کو کچھ دینے کے قابل ہوں گے۔کیونکہ ہمارا نعرہ ہے کہ۔کیا خاک وہ جینا ہے جو فقط اپنی ذات کے لئے ہو۔خود کو مٹا کر نئی نسل کو مٹانے سے بچالیں۔آخر میں بقول اقبال:ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں