طلاق اور اس کے منفی اثرات
تحریر، خرم شہزاد ملک
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں جس ماحول میں رہ رہے ہیں وہاں لفظ طلاق ایک معمولی سا لفظ ہے ہمارے پاکستانی ڈراموں میں طلاق لفظ کو کھیل سمجھ کر دکھایا جاتا ہے ہم نے کبھی اس بات کو نہیں سوچا کہ ہم کس مغربی کلچرل کو فروغ دے رہے ہیں ہمارے معاشرے میں طلاق مرد دیتا ہے مگر اس کے باوجود اُس کے لیے غیر شادی شدہ اور کم عمر لڑکیوں کی ایک لائن لگی ہوتی ہے مگر بے قصور طلاق یافتہ عورت پہ زندگی تنگ کر دی جاتی ہے قصور چاہے اُس عورت کا بے شک کچھ بھی نہ ہو مگر عجیب و غریب قسم کے القابات سے نوازا جاتا ہے افسوس اگر اس عورت کی دوبارہ شادی ہو بھی جائے تو چاہے مرد اس سے دس سے بیس سال تک بڑا ہو، اور چاہے وہ دو تین بچوں کا باپ کیوں نا ہو ہمیشہ غلط عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے
یہ عورت صرف اپنی عزت اور دو وقت کی روٹی کے لیے صبر کر لیتی ہے، بوڑھے مرد کے ساتھ گزارہ کر لیتی ہے، اُس کے بچے بھی سنبھال لیتی ہے مگر انجانے میں کوئی چھوٹی سی بھی خطا ہو جائے تو ہر بار ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے کہ تم اگر “اتنی ہی شریف پارسا ہوتی تو پہلا خاوند تمہیں طلاق کیوں دیتا” طلاق اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نا پسندیدہ عمل ہے جب ایک مرد اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو عرش اور فرش کانپ اٹھتے ہیں ہم اس بات کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ایک بیوہ سے شادی کی تھی
اگر ہم کسی عورت کا درد سمجھ نہیں سکتے تو اسے ہرگز طعنہ بھی مت دیں کیا پتہ آنے والے زندگی میں ہماری بہن بیٹی کو اس کا سامنا کرنا پڑ جائے میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ہم کسی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کو اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پوری کرتے ہوئے نکاح کریں تو اس کو کبھی اس بات کا طعنہ مت دیں کیونکہ الفاظ جگر چیرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ٹوٹا ہوا شیشہ جیسے کبھی نہیں جڑ سکتا ایسے ہی ہمارے مونہہ سے نکلے ہوئے الفاظ کسی کا جگر بھی چیر سکتے ہیں شاید وہ گھاؤ کبھی نا بھر سکیں ہمیں اس معاشرے میں رہ کر اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا عورت کو عزت دینا ہوگی مرد گھر کو چلانے کے لئے دن رات محنت مزدوری کرتا ہے اور ایک گھر کو سنوارنے اور بنانے میں جو اہم کردار عورت کا ہے اسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا عورت ایک ماں بھی ہے،بہن بھی ہے،بیٹی بھی ہے،
بیوی بھی ہے گھر کے نظام چلانے میں عورت کھانا بنانے سے لیکر صفائی ستھرائی سے لیکر گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کی خانہ داری کے علاوہ تنکا تنکا جوڑ کر وہ اپنی کٹیا کو محل بناتی ہے خاوند کی خدمت، بچوں کی نگہداشت اور ان کی پرورش اچھے طریقے سے کرتی ہے آج بھی کئی خاندانوں میں طلاق کو گالی سمجھا جاتا ہے طلاق وہ بدنما داغ ہے جو کسی شریف عورت کے ماتھے پر لگ جائے تو ایک بد نما داغ بن کر رہ جاتا ہے میں نے اپنے بچپن میں اپنی ایک محلہ دار عورت کو دیکھا جس کے 2 بیٹے اور ایک بیٹی تھی وہ بڑی نیک اور پارسا خاتون ہیں ان کے خاوند نے ان کو طلاق دے دی اس خاتون نے اپنی جوانی اپنے بچوں پر قربان کر دی اس خاتون نے دوبارہ شادی نہیں کی آج اس کے بچے ماشاءاللہ جوان ہو چکے ہیں
اس خاتون کے سر پر چاندی کی مانند سفید بال آ چکے ہیں اس نے اپنے بچوں کی پرورش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی مگر وہ بچے بچپن سے لیکر آج تک اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہیں مجھے ان کو دیکھ کر آج بھی ترس آتا ہے اس خاتون کو دیکھ کر دلی دکھ ہوتا ہے جس کی شرافت اور پاکدامنی کی میں قسم کھانے کو تیار ہوں وہ نیک اور پارسا خاتون کو طلاق کا ایک لیبل لگا کر اسے بے قصور چھوڑ دیا گیا جو اس وقت اپنے پیٹ میں نومولود بچے کو لیکر جو اس دنیا میں ابھی نہیں آیا تھا اپنے سسرال گئی روتی گڑگڑاتی رہی مگر اس کے آنسووں اور اس کے باندھے ہوئے
ہاتھوں کی طرف نا دیکھا گیا آخر اس بچے کا کیا گناہ تھا جو پیدا ہونے سے لیکر آج تک اپنے باپ کی شکل دیکھنے سے محروم رہا میں مرد کی اہمیت کو ہرگز نہیں جھٹلا رہا بلکہ آپ سب کے سامنے ایک سچ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں میرا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے اگر کسی کی بھی میری اس تحریر سے دل آزاری ہوئی ہو تو میں تہہ دل سے معذرت چاہتا ہوں ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا جب ہم اپنی سوچ کو بدلیں گے تو معاشرے میں نکھار آئے گا
بقول شاعر،
انداز بیاں اگرچہ شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات