’’ بلدیاتی اداروں کی بحالی، کپتان کی جمہوریت کو پھر خطرہ‘‘ 139

’’شہباز نہ کر سکے پرواز‘‘

’’شہباز نہ کر سکے پرواز‘‘

تحریر محمد اکرم عامر سرگودھا
موبائل فون،03008600610
وٹس ایپ..،03063241100
ملک میں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے سپہ سالار میاں شہباز شریف جب عدالت کے حکم پر آٹھ ہفتے کیلئے علاج کرانے کی غرض سے بیرون ملک جانے کیلئے لاہور ایئر پورٹ پہنچے تو شہباز شریف وہاں پہلے سے موجود ایف آئی اے لاہور کی ٹیم کو دیکھ کر ششدر رہ گئے، موصوف ابھی اس بارے سوچوں میں گم تھے کہ ایف آئی اے کی ٹیم نے انہیں بتایا کہ آپ کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے، اس لئے آپ بیرون ملک نہیں جاسکتے، اس طرح شہباز شریف بیرون ملک جا کر اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کو ملنے کی خواہش لئے ائیر پورٹ سے واپس ماڈل ٹائون پہنچ گئے، مسلم لیگ ن کی قیادت میاں شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روکنے کو توہین عدالت قرار دے رہی ہے ،جبکہ حکومت کہتی ہے کہ بلیک لسٹ سے نام نکالنے کا اختیار صرف ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو حاصل ہے،اگرحکومت کی بات درست مان لی جائے تو ماضی میں کئی

شخصیات عدالت عالیہ،یا عدالت عظمیٰ،کی اجازت پر بیرون ملک کیوں گئے، جن میں سرفہرست میاں نواز شریف بھی شامل ہیں جو تین ہفتوں کے لئے علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے تھے مگر واپس نہ آئے، اور اب ہر تاریخ پیشی پر نواز شریف کے وکیل عدالت میں ان کے غیر ملکی ڈاکٹر کا جاری کردہ میڈیکل پیش کر کے التوا مانگتے ہیں ،اور یہ کھیل کئی ماہ سے جاری ہے، عدالت نے میاں نواز شریف کو غیر حاضری پر اشتہاری بھی قرار دے رکھا ہے، اور ان کے وارنٹ بھی جاری کر رکھے ہیں، وفاقی حکومت نے چند ماہ قبل انٹر پول کے ذریعے میاں نواز شریف کو وطن واپس لا کر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن ناجانے اس مسئلہ پر حکومت نے پھر چپ کیوں سادھ لی، یہ وہ سوال ہے جو ہر سیاسی شعور رکھنے والا شہری کر رہا ہے؟
دوسری طرف میاں نواز شریف کی بیرون ملک سرگرمیاں سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں اور وہ (میاں نواز شریف) اپوزیشن کے اجلاسوں سے خطاب کے علاوہ بیرون ملک دوست احباب کی محفلیں بھی اٹینڈ کرتے سوشل میڈیا پر دیکھے جاتے ہیں، جبکہ حکومت نواز شریف کی راہ تک رہی ہے کہ وہ کب وطن واپس آئیں گے، حکومتی وزراء میاں نواز شریف پر کڑی تنقید کررہے ہیں، اور انہیں بھگوڑا تک قرار دے رہے، جبکہ مسلم لیگ ن کی قیادت کہتی ہے کہ میاں نواز شریف صحت یاب ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے، لیکن سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ موجودہ ملکی سیاسی حالات میاں نواز شریف کیلئے سازگار نہیں ہیں وہ کسی صورت بھی کپتان کی حکومت میں وطن واپس نہیں آئیں گے اور اگر نواز شریف وطن واپس آنے کی غلطی کریں گے تو انہیں سیدھی جیل یاترا کرناپڑے گی۔
اب میاں شہباز شریف بھی علاج کی غرض سے آٹھ ہفتے کے لئے مشروط طور پر بیرون ملک جانا چاہ رہے تھے کہ انہیں ایف آئی اے نے پرواز کرنے سے پہلے ہی ائیرپورٹ پر روک لیا ہے، اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ ن کی قیادت اسے حکومت وقت کی انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہے، اور کہہ رہی ہے کہ نیب کی جانب سے شہباز شریف کے خلاف کک بیکس کے شواہد نا ملنے کا اعتراف کیا گیا، جس پر عدالت نے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی، شہباز شریف کے اکائونٹس میں پیسوں کے آنے کا عنصر بھی نہیں پایا گیا، ماڈل ٹائون کا گھر نصرت شہباز کے نام ہے،

ثبوتوں کے بغیر شہباز شریف پر کیس بنایا گیا، مسلم لیگ ن کی خاتون رہنما مریم اورنگ زیب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ حکومت نے بوکھلاہٹ میں شہباز شریف کا نام دہشت گردوں والی بلیک لسٹ میں شامل کردیا ہے جبکہ حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ میاں شہباز شریف بھی اپنے بھائی کی طرح ملک سے فرار ہونا چاہتے ہیں، وزیر اعظم کے کار خاص شہزاد اکبر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ملزم (شہباز شریف) مجرم (نواز شریف) کے ساتھ عید مل کر عید منانا چاہتے ہیں، حکومت نے عدالت عالیہ لاہور ہائیکورٹ کے میاں شہباز شریف کے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اپوزیشن کہتی ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روکنے پر حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرے گی، یوں حکومت اور مسلم لیگی قیادت آپس میں ایک دوسرے پر کڑی تنقیدکررہی ہے،

اسی نوعیت کا ماحول کچھ روز قبل تک پی ڈی ایم اور حکومت کے مابین تھا پی ڈی ایم نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے پہلے ضمنی ،پھر سینٹ کے انتخابات کے بائیکاٹ، پھر اسمبلیوں سے اپوزیشن کے ارکان اسمبلیز کے مشترکہ استعفوں، اور 26 مارچ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کیا، لیکن نادیدہ قوتوں نے ایسا کھیل کھیلاکہ پی ڈی ایم کا اتحاد تار تار ہوگیا اور اپوزیشن کے اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی، پی ڈی ایم سے الگ ہوگئیں، اور ان دونوں جماعتوں نے پی ڈی ایم کے عہدوں سے بھی استعفے دے دیئے، جس پر پی ڈی ایم کو حکومت مخالف تحریک کے ہر اعلان سے یوٹرن لینا پڑا، اس طرح باقی بچ جانے والی پی ڈی ایم اپنا مطلوبہ ٹارگٹ تو پورا نہ کرپائی، لیکن سیاسی زرائع کہتے ہیں

کہ اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم سے پاکستان پیپلز پارٹی نے خوب سیاست کی اوراپوزیشن کی مدد سے اسلام آباد کی سینٹ کی سیٹ جیت کر حکومتی سینٹرز کی مدد سے یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوا لیا، ایسا ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کو نامزد کرنے میں حکومتی جماعت کے سینیٹرز نے اپوزیشن لیڈر کی تائید کی ہو، حالانکہ سینٹ کے ایوان میں مسلم لیگ ن دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر شپ مسلم لیگ کا حق تھا۔
سو بات کہاں سے کہاں نقل گئی بات ہورہی تھی میاں شہباز شریف کے عدالت عالیہ کے حکم پر علاج کیلئے آٹھ ہفتوں کیلئے بیرون ملک جانے کی، مگر کپتان اور ان کی ٹیم انہیں بیرون ملک جانے نہیں دینا چاہتی،کیونکہ تین ہفتہ کے لئے علاج کے لئے جانے والے میاں نواز شریف ملک واپس نہیں آ رہے، اور اب اگر شہباز شریف بھی چلے جاتے ہیں تو پھر تو وہ بھی بیرون ملک سے بیٹھ کر میاں نواز شریف کی طرح حکومت پر گرجیں برسیں گے، اسی تناظر میں حکومت نے میاں شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روک کر عدالت عالیہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن حکومت کے اس اقدام کے خلاف توہین عدالت دائر کرے گی، اس طرح حکومت اور اپوزیشن کے مابین قانونی جنگ شروع ہونے جارہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ جنگ کون جیتتا ہے؟ اس کے لئے قارئین کو تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں