عمران خان کی گرتی ساکھ 150

عمران خان کی گرتی ساکھ

عمران خان کی گرتی ساکھ

خلیل احمد تھند
انسٹیٹیوٹ فار پبلک اوپینین کے ایک سروے کے مطابق اس وقت وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی سے صرف 27 فیصد عوام مطمئن ہیں ان میں سے 18 فیصد کو صرف امید ہے جبکہ 9 فیصد پوری طرح مطمئن ہیں جو طبقہ اشرافیہ ، انکے قریبی ہمنواوں ، پارٹی کے عہدیداروں اور ورکرز پر مشتمل ہوسکتے ہیں سروے کے مطابق 65 فیصد عوام عمران خان کی کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں ان میں سے 33 فیصد شدید مایوس ہوئے ہیں جبکہ 32 فیصد قدرے کم مایوسی کا شکار ہیں اس سروے کے اعداد و شمار کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت کا گراف بدترین سطح تک گر چکا ہے

انہوں نے اپنی تحریک ملکی خزانہ لوٹنے والے سیاست دانوں سے لوٹی دولت کی واپسی ، گڈ گورننس ، وی آئی پی کلچر کے خاتمے ، بیرونی قرضوں سے نجات اور معیشت کی بہتری کے ذریعے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے جیسے اہم نقاط پر اٹھائی تھی وزیر اعظم عمران خان اپنی حکمرانی کے ڈھائی سال سے زائد عرصہ میں اپنے وعدوں اور دعووں میں سے کسی ایک پر جزوی عملدرآمد بھی نہیں کرسکے بلکہ انہوں نے اپنی نااہلی کے ذریعے ملک کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے

انکی منتخب کردہ داغدار اور غیرمنضبط ٹیم نے نہلے پر دھلے کا کام کیا ہے عمران خان نے احتساب کے نام پر صرف مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا ہے انکے اپنے کرپٹ ساتھی انکے ساتھ شریک اقتدار یا پھر آزاد پھر رہے ہیں احتساب ڈرامے پرجتنے وسائل خرچ کئے گئے ان کا عشیر عشیر بھی ملکی خزانے میں واپس جمع نہیں کروایا جاسکا
بیرونی قرضوں کی شرح میں سابقہ ادوار کی نسبت اضافہ ہوا ہے حالیہ دور میں آئی ایم ایف کی قبول کی گئیں شرائط کی وجہ سے ملک اور ملکی معیشت کی آزادی پر سوالات کھڑے ہوئے ہیںگورننس کی ایسی ابتری اس سے پہلے کسی ناکام حکومت کے دور میں بھی دیکھنےکو نہیں ملی حکومت کی کسی ادارے پر گرفت نہیں ہے

رشوت کے ریٹ میں اضافہ ہوا ہے عمران خان کے ارد گرد اشرافیہ کے زیر اثر وی آئی پی کلچر مادر پدر آزاد اور بدترین شکل میں موجود ہےملک معاشی طور پر بدحال ہوا ہے اشرافیہ کے علاوہ ہر طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے عام آدمی کی عزت ، جان و مال پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوئے ہیں مہنگائی اور بے روزگاری نے شہریوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے عام آدمی کے لئے بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے
ایک اندازے کے مطابق صرف اس دور حکومت میں تقریبا” دو کروڑ افراد بے روزگار ہوئے ہیں اورمعاشی بدحالی کی وجہ سے ڈیڑھ کروڑ بچے سکول چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیںایسی بدترین کارکردگی کے باوجود جناب عمران خان صاحب اور انکی ٹیم کے ارسطو دودھ اور شہد کی نہروں کی روانی کی خوشخبریاں سنا رہے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ حکومت روز اول سے اچھی کارکردگی کی بجائے احتساب ڈرامے اور وقتا” فوقتا” کھڑے کئے گئے ایشوز کے سہارے وقت گزارنے کی حکمت عملی پر گامزن چلی آرہی ہے اور اس حاصل ہونے والے وقت سے فائدہ اٹھانے سے بھی قاصر رہی ہےہمارے نزدیک ڈنگ ٹپاو حکمت عملی سے عوام کی آنکھوں میں زیادہ عرصہ دھول نہیں جھونکی جا سکتی یہی وجہ ہے کہ عوام کے علاوہ عمران خان کے وہ سپورٹرز بھی ان کی کارکردگی سے مایوس ہوکر منہ چھپاتے پھر رہے ہیں

جو کبھی انکے خلاف ایک لفظ سننے کے روادار نہیں تھےہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے اپنی بری کارکردگی سے اپنا سیاسی نقصان تو کیا ہی ہے تبدیلی کے لئے کوشش کرنے والی حقیقی سیاسی جماعتوں اور ورکرز کی منزل بھی کھوٹی کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی افسوس یہ ہے کہ انہیں اپنے اس جرم کا احساس بھی نہیں ہے (سروے اعدادوشمار بشکریہ عبداللہ منصور )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں