تبدیلی والوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی !
تحریر:شاہد ندیم احمد
دنیا میں اقتدار و اختیارایک ایسا نشہ ہے کہ جس کے ہوتے انسان بھول جاتا ہے کہ آج دوسروں کے ساتھ جو کررہا ہے ،کل اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو سکتا ہے ، میاں نواز شریف اور آصف علی زر داری نے اپنے دور اقتدار میں ایک دوسرے کے ساتھ ایساہی کچھ رویہ روا رکھا ہو گا کہ انہیں مکافات عمل بھگتنا پڑرہا ہے،اس وقت زرداری اور شریف فیملی احتسابی شکنجے سے نکلنے کیلئے ہاتھ پائوں ماررہے ہیں ،میاں نوازشریف توبیماری کا بہانہ کرکے بیرون ملک جانے میںکا میاب ہو گئے ،اب میاں شہباز شریف بھی اُ ڈاری بھرنے کوتیار نظر آتے ہیں
،میاں شہباز شریف کو ہائی کورٹ نے علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے بلیک لسٹ سے بھی نام نکالنے کا حکم دیا،لیکن وہ جب لندن جانے کیلئے ائیر پورٹ پہنچے توایف آئی اے کی دو خواتین افیسرز نے جہاز پر سوار ہونے سے روک دیا،انہوں ایسا سب کچھ کس کے حکم پر کیا ،کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،تاہم وفاقی وزیر فواد چو دھری نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی بات کرنے کے ساتھ چیلنج دیا ہے کہ شہباز شریف کو باہر جانے سے روکنے کیلئے ہر حد تک جائیں گے،اس حکومتی چیلنج کے بعد شہباز شریف لندن جاسکیں گے یا نہیں جاسکیں گے
،اس کا فیصلہ آئندہ عدالت ہی کے ذریعے ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔تحریک انصاف حکومت اپنے تمام تر دعوئوں کے باوجود جس طرح میاں نواز شریف کو بیر ون ملک جانے سے روک سکی ،شائد میاں شہبازشریف کو بھی نہ روک سکے ،کیو نکہ انہیں بیرون ملک بھیجنے والی قوتیں سب سے زیادہ طاقتور ہیں ،تاہم وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ آخرکب تک کرپٹ حکمران قومی خزانہ لوٹ کر ملک و قوم کو تباہ کر تے ر ہیں گے،
میاں نوازشریف بیماری کا بہانہ کرکے مفرور ہیں اور شہباز شریف پر ایک کیس 700 ارب کی منی لانڈرنگ کے ساتھ دیگر مقدمات ہیں ، وہ بھی باہر بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں،لیکن میں کبھی کسی کو این آر او نہیں دوں گا ،مجھے صرف اللہ کا خوف اوراللہ کو ہی جواب دہ ہوں، یہاں غریب لوگ جیلوں میں سڑرہے ہیں اور ہم کرپٹ اُمراکوچھوڑ دیں،ایسا کبھی نہیں ہو گا،کرپٹ اشرافیہ قانون کی بالادستی نہیں چاہتے،ہم عدل ہم قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، ہم کرپٹ مافیاز سے لڑ رہے ہیںاور اس مافیازسے جیت کر بھی دکھائیں گے۔
وزیر اعظم جہاں کرپٹ ما فیاکے خلاف لڑنے کے عزم پر قائم ہیں ،وہیںحکومت شہبازشریف کوکسی قیمت پر لندن جانے کی اجازت نہ دینے کا پکا ارادہ کر چکی ہے
،یہ ضد کا معاملہ ہے یا پھر سیاسی انتقام ہے، اس کا فیصلہ آسانی سے نہیں کیا جا سکتا، تاہم اس پر حکومت کاموقف ہے کہ شہبازشریف نے چونکہ نوازشریف کے واپس آنے کی ضمانت دی تھی، اس لئے بطور ضامن ان کا پاکستان میں رہنا ضروری ہے،دوسری دلیل دی جا رہی ہے کہ جس کیس میں شہبازشریف کو ضمانت ملی ہے، اس میں دیگر 16ملزمان بھی شریک ہیں، اگر شہبازشریف ملک سے چلے گئے تو کیس آگے نہیں بڑھ سکے گا، اس لئے ان کا ریفرنس کے فیصلے تک شہباز شریف کاملک میں رہنا قانونی تقاضا ہے،اس پر مسلم لیگ (ن) کا موقف بھی بڑا واضح ہے کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ہی لاہور ہائیکورٹ سے دو مہینے کی اجازت لی گئی ہے۔
تحریک انصاف حکومت اور مسلم لیگ( ن) کے درمیان شہباز شریف کے جانے کے معاملے پر ٹھن گئی ہے ، اس معاملے پرآئندہ دنوں میںمزید سیاسی تصادم بڑھتا دکھائی دے رہا ہے،لیکن اس سیاسی تصادم میں ایک بار پھر عوامی مسائل دب کررہ جائیں گے،عوام کبھی نہیں چاہیں گے کہ کرپٹ مافیاز کو چھوڑا جائے،عوام یہ بھی نہیں چاہتے کہ سیاسی دبائو میں کسی کواین آر او دیا جائے،حکومت شہباز شریف کو باہر نہیں جانے دینا چاہتی، نہ جانے دے، لیکن کیا ضروری نہیں کہ
ایسے تمام مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بھی سائنسی بنیادوں پر کام کیا جائے، نیب ایک کے بعد ایک مقدمہ سامنے لارہا ہے ،کچھ پرانے مقدمات بھی کھولے جارہیں،لیکن کوئی ایک بھی اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچنے کے باعث تاثر بڑھتا جارہا ہے کہ واقعی کہیں بدترین سیاسی انتقام تو نہیں لیا جارہاہے۔
وزیراعظم بار ہا عوام سے اپنے ساتھ کھڑے رہنے کی اپیل کرتے ہیں،مگرخود مافیاز کا مقابلہ کرتے کرتے عوام سے دور نکلتے جارہے ہیں،حکومت ابھی تک مافیا کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکی، لیکن عام آدمی کی کمر ٹوٹ گئی ہے، ایک عام آدمی کی اشد خواہش ہے کہ ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے، لیکن یہ خواہش بھی وقتت کے ساتھ دم توڑ نے لگی ہے، کیونکہ عوام کا اپنا سانس لینا مشکل ہوتا جارہا ہے۔حکومت اڈھائی سال میں ملکی خزانہ لوٹنے والوں کے ساتھ تو کچھ نہ کر سکی ،البتہ عام آدمی کی گردن ضرور دبوچ رکھی ہے ،اس کے باوجود عام آدمی یہ نہیں کہتاکہ چوروں کو چھوڑ دیں، لیکن یہ تقاضا ضرور کرتا ہے کہ اسے بھی جینے کا حق دیا جائے۔
وزراعظم عمران خان کی نیک نیتی پر کوئی شک نہیں ،مگر اب تک تمام تر کائوشوں کے باوجود عوام کے لیے کوئی قابل قدر آسانیاں پیدا نہیں کی جاسکیں ، اب تک صرف حکومتی وزراء کی ناقص کا رکر دگی پر وزارتیں اور محکمے تبدیل کرکے کار کردگی بہتر کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی رہی ہے ،جبکہ وزارتوں سے الگ کیے جانے والے بھی کچھ عرصہ بعد واپس عہدوں پر نظر آنے لگتے ہیں،اس دور حکومت میں کبھی غیر منتخب یا غیر سیاسی افراد کا دور آتا ہے تو کبھی منتخب افراد نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں ،حکومت کی اوپر کی سطح پر یہی تبدیلی ضرور نظر آتی ہے،
لیکن جنہوں نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا تھا، ان کی زندگی میں کوئی بہتر تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے ،عوام کے حالات بدتر سے بدترین ہوگئے ہیں،عوام کوشہباز شریف کے ملک میں رہنے یابیرون ملک جانے سے کوئی غرض نہیں،عوام آئے روز کے سیاسی تصادم سے تنگ آچکے ہیں، انہیں اپنے مسائل کے تدارک کی فکر ہے ،حکومت نے وعدوں اور دعوئوں کے سہارے بہت وقت گزار لیا، اب توجس مافیاز کا ذکر کیا جاتا ہے، انہیں نشان عبرت بنانے کے ساتھ عوام سے کیے گئے وعدوں کو حقیقی طور پرنبھانے کا وقت ہے۔