مسلمانوں کیخلاف واقعات اسلامو فوبیا کا ثبوت 182

قبلہ اول کے دفاع کی پکار !

قبلہ اول کے دفاع کی پکار !

تحریر:شاہد ندیم احمد
اسرائیل کافلسطین پرظالم ساری دنیا کے سامنے ہے،اس کا نشانہ اسلام اور مظلوم مسلمان ہیںکہ جن کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔اسرائیلی فوج کے ظلم سے کوئی گھر، کوئی مسجد محفوظ نہیں، یہاں تک کہ مسجدِ اقصیٰ، مسلمانوں کے قبلہ اول پر ظالم چڑھ دوڑے ہیں، ایک طرف بھارت اور دوسری طرف اسرائیل دونوں نے ظلم و بربریت کی انتہا کررکھی ہے ،مظلوم کشمیری اور فلسطینی بے حسی کی شکار دنیا کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں،

وہ عالمی برادی کے ساتھ اُمت مسلمہ سے بھی مدد مانگ رہے ہیں،وہ مسلمان ممالک کی افواج سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ اُنہیں ظالموں کے ظلم سے بچائیں گے، لیکن چند ایک مسلمان ممالک کی حکومتوں کی طرف سے مذمتی بیانات کے سوا کچھ نہیں ہو رہاہے، ظالم کا ظلم بڑھتا اور مظلوم کا خون بہتا چلا جا رہا ہے، لیکن اقوام متحدہ سمیت اُمت مسلمہ کے پچاس سے زیادہ مسلمان ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
یہ دنیا کی بے حسی کی انتہا ہے

کہ اسرائیل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کھلے عام خلاف ورزی کر رہا ہے، لیکن اقوامِ متحدہ خاموش ہے،غزہ میں اسرائیل کو آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کی کھلی چھوٹ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ آج کی دنیا فی الحقیقت اندھیرنگری بن چکی ہے، جہاں عدل و انصاف اور انسانی حقوق کے تمام نعرے محض فریب اور دکھاوے کے سوا کچھ نہیں، بین الاقوامی برادری کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر کئی دن تک وحشیانہ تشدد کیا جاتا رہا،

غزہ کی محصور پٹی پر ایک ہفتے میں چھ سو سے زائد فضائی حملوں میںبچوں اور عورتوں سمیت شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداددوسو تک پہنچ رہی ہے، لیکن قیام امن کے ذمہ داروں کی مستعدی کا حال یہ ہے کہ ابھی تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا باضابطہ اجلاس بھی نہیں ہوسکا ہے، اقوامتحدہ کا اجلاس امریکی حکومت کی خواہش پرمؤخرکیاگیا،اس سے واضح ہوتاہے کہ تنازعات کا منصفانہ حل تلاش اور نافذ کرنے کے ذمہ دار اقوام متحدہ جیسے ادارے بڑی طاقتوں کے تابع فرمان اور ان کے مفادات کے آلہ کار ہیں، جن کا رہنما اصول ہی قیام انصاف کے بجائے ،جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ امریکا کو اسرائیل کی دہشت گردی کی بجائے حماس کے حملوں پر زیادہ تشویش ہے، کیونکہ امریکا اپنے ایک بیان میں کہہ چکا ہے کہ اسرائیل کو حماس کی جانب سے داغے جانے والے راکٹوں کے خلاف دفاع کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ اس وقت حماس واحد ایسی تنظیم ہے، جوکہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے اور فلسطینیوں کے اصولی موقف کے ساتھ ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی

آبادی کاری اور اسرائیلی ریاست کا قیام ناجائز ہیں، فلسطین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کو باقی رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالم اسلام کے حکمران بھی مزاحمتی قوت کے ساتھ کھڑے ہوتے، لیکن دنیا میں پونے دو ارب مسلمان اور 57اسلامی ممالک ہونے کے باوجودفلسطینیوں اور دیگر مظلوم مسلمانوں کے ساتھ حقیقی معنوں میں نہیں کھڑے ہیں، اگر ان میں سے صرف نصف اسلامی ممالک بھی امریکا اور اسرائیل کے سامنے کھڑے ہوجائیں تو دنیا کی صورتحال مختلف ہو جائے گی ۔
یہ تبھی ممکن ہے کہ جب اُمت مسلمہ متحد ہو جائے،لیکن صہیونی قوتیں کبھی نہیں چاہتیں کہ اُمت مسلمہ متحد ہو جائے ،اس لیے اُمت مسلمہ میں انتشار کے بیج بوتی رہتی ہیں،اس وقت عرب سمیت دیگرمسلم حکمرانوں کے لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اسرائیل صرف سرزمین فلسطین تک محدود نہیں رہے گا ،بلکہ یہ عظیم تر اسرائیل کا ایک گھنائونا منصوبہ بنایا گیا ہے کہ جس کی حدود میں سعودی عرب سمیت متعدد مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ اسرائیل اپنے منصوبے کو منتقی انجام تک پہچانے
کیلئے سر گرم ہے تو مسلم ممالک کو بھی اپنی بقا کے لیے ضروری ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوکر اسرائیل کو آگے بڑھنے سے روکیں، 57مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی کو بھی زندگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس ضمن میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے، او آئی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی نے اپنااجلاس تو طلب کرلیا ہے، لیکن ماضی کی طرح ان سے کوئی بڑی امید نہیں لگائی جاسکتی،تاہم اس وقت حالات کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان حکمران ہوش کے ناخن لے کر فلسطین اور امت مسلمہ کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، ورنہ آنے والے وقت میں فلسطین کی آزادی تو نوشتہ دیوار ہے ،لیکن ان کی حکمرانی کا مستقبل اچھا نہیں نظر آرہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اسلامی ممالک تعداد میں بہت زیادہ ہیں، لیکن ان میں قوت جوشِ ایمانی نہیں رہا ہے ، اسی وجہ سے

مسلمان حکمران بزدلی کا شکار نظر آتے ہیں،فلسطینی مسلمان اسرائیل کے ظلم سے بچنے اور قبلہ اول کے دفاع کے لئے پکار رہے ہیں،جبکہ مسلمان ممالک کا اب تک فلسطین کی صورت حال پر مشترکہ ردعمل ناکافی ہے، سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے وزیر اعظم عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے ،پاکستانی حکام نے بھی ترک، انڈونیشین اور ایرانی حکام سے تبادلہ خیال کیا ہے ،اس وقت رابطوں سے زیادہ پوری امت مسلمہ کو ایک جاندار اور موثر موقف اپنانے کی ضرورت ہے،اگر اس بحرانی کیفیت میں بھی مسلم ممالک کوئی موثر مشترکہ

موقف نہ اپنا سکے تو ان کی سیاسی‘ دفاعی اور معاشی حیثیت مزید حقیر ہو جائے گی، اس صورت حال میں جس طرح پاکستانی فوج نے حرمین شریفین کی حفاظت کی قسم کھائی ہوئی ہے ، کیا پاک فوج مسلمانوں کے قبلہ اول کی حفاظت کا بیڑہ نہیں اٹھا سکتی؟ بالکل اٹھا سکتی ہے، مگر اس کیلئے اسلامی ممالک میںباہمی اتحاد کہاں سے میسر کیا جائے کہ جس کے بعد قبلہ اول کے دفاع کایہ ڈول ڈالا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں