عبرت کی جاہ
ماہ نور نثار احمد (شکرگڑھ)
جیسے گلشن میں کلی کو ثبات نہیں – جیسے بہار کا موسم صدا بہار نہیں – جیسے خزاں بھی آنی جانی ہے – ایسی ہی بلکل زندگی کی کہانی ہے – یہاں ہم مستقل نہیں کیونکہ دنیا فانی ہے – اسے ایک دن ختم ہونا ہے- تو جو ختم ہونے والی ہے اس سے اتنا پیار کیوں ؟
جن چیزوں کے لئے انسان سر توڑ کوشش کرتا ہے جس کے تالے کھولنے کے لئے وہ دن کو رات کئے دیتا ہے- اس کی کنجیاں تو اس خالق کے پاس ہے جس کے پاس جانے کا وہ سوچتا ہی نہیں ہے – انسان کو اگر سکون چاہیے تو اسی دنیا میں چاہئے – اسے دولت چاہئے تو اس دنیا کی چاہئے – اسے عزت چاہئے تو عارضی دنیا کے عارضی لوگوں سے چاہئے – اسے محبت ہوتی ہے تو اس دنیا کے جلد باز انسان سے ہوتی ہے – آخر وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ
“اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے”
اسے کیوں پتا نہیں چل رہا کہ یہ مال ومتع صرف عارضی دنیا میں قیمتی ہے حقیقت میں تو گلے کا طوق بن جائے گا –کیوں یہ بات بھول جاتا ہے انسان کہ
وہ جیسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے
محبت کا متلاشی یہ بات سمجھ ہی پایا کہ جب تک وہ کریم ذات نہ چاہے کسی دل میں محبت پیدا نہیں ہو سکتی – جب سب کچھ اسی کے وسیلے سے ہونا ہے تو اسی سے اتنی غفلت ؟ اور پھر شکوے شکایات کہ ہمیں محبت نہیں ملی اور ہمیں دل سے عزت نہیں دی جاتی – خدارا کچھ تو رحم کریں خود پر – جب بد عنوانی اور بدیانتی سے روکا گیا تو سننے میں آیا کہ دنیا میں سب چلتا ہے – کیا جاہلوں کی سی بات ہے انہیں تو آخرت میں پتا چلے گا کہ دنیا میں کیا چلنا تھا
اور کیا چلایا گیا – ایک ہی راستہ ہے ایک ہی ہدایت ہے – کوئی پا لیتا ہے- کوئی بھٹک جاتا ہے – کوئی بھٹک کر پا لیتا ہے اور کوئی پا کر بھی بھٹکا ہی رہتا ہے – یہ بھی تو اسی ذات کے رنگ ہیں وہ جسے چاہے رنگ لے اپنے رنگ میں – اور وہ اسے ہی چاہے گا جو خود اس کے رنگ میں رنگنا چاہے گا – جو اس دنیا کو امتحاں گاہ سمجھے گا وہ آخرت میں نجات پائے گا اور جو اس دنیا کو اپنا سمجھے گا اس کا انجام اس بات پر ہوگا کہ وہ اس ذات کو کیا سمجھا تھا اور کتنا سمجھا تھا –