پنجاب پولیس میں پھراصلاحات کانعرہ”
فون نمبر،03008600610
وٹس ایپ،03063241100
تحریر اکرم عامر سرگودھا
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ مہذب معاشروں والے ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ایسے ممالک میں جرائم کی شرح بہت کم ہوتی ہے کیونکہ پولیس اور قانون نافذکرنے والے ادارے عوام کی جانب سے ہونے والی حوصلہ افزائی کی وجہ سے دلجمعی سے جرم اور جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے،لیکن ہمارے ملک کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے
جو سب سے زیادہ تنقید اپنے ملک کے محافظوں (پولیس) پر کرتے ہیں،مگر ہم میں سے اکثریت نے دیگر وفاقی اور صوبائی محکمہ جات جو کرپشن اقربا پروری اور لاقانونیت کی داستانوں سے بھرے پڑے سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے،ہمارے ملک کا یہ بھی المیہ ہے کہ ہر برسر اقتدار آنے والے حکمران نے قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پولیس کو جرم اور جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کاٹاسک دیا
اور اس کے بدلے میں پولیس رولز میں اصلاحات کرکے پولیس افسران ملازمین کو سہولتیں دینے کے اعلان کا لالی پاپ دیا مگر کسی بھی حکومت نے عوام اور ملک کی محافظ پولیس فورس کو وہ مراعات نہ دیں جو ان کا حق تھا،بلکہ نئے پولیس آرڈینس کے تحت صوبائی پولیس فورس کی ترقیوں کو کم کر کے پی ایس پیز کا کوٹہ بڑھا دیا، گیا
جس سے صوبائی پولیس فورس کے کانسٹیبل سے لیکر آفیسر رینک تک کے ملازمین میں بے یقینی کی سی کیفیت پائی جارہی ہے،موجودہ حکومت بالخصوص کپتان بھی پنجاب میں کے پی کے کی طرز پر اصلاحات لانے اور پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کا نعرہ بلند کرکے وفاق وزیر اعظم کے منصب تک پہنچے تھے، لیکن جولائی 2018 سے اب تک موجودہ حکومت کے ارباب اختیار نے پولیس اور پولیس کے نظام کی بہتری کیلئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا،
یہی وجہ ہے کہ اب بھی پولیس کا نظام اکثریت انگریز کے بنائے گئے قوانین کے تحت چل رہا ہے لیکن پنجاب پولیس کی تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں کسی حکومت کے دور میں اتنے آئی جیز پولیس پنجاب تبدیل نہیں کئے گئے
جتنے عثمان بزدار کی حکومت کے دور میں کئے گئے،گو کہ صوبوں کے آئی جیز کے تبادلوں و تعیناتیوں میں ملک کے وزیراعظم اور وزارت داخلہ اور وزارت قانون کے وزراء کا بھی عمل دخل ہوتا ہے،اوریکے بعد دیگرے تبدیلوں کے بعد وزیراعظم ،وزیر اعلیٰ پنجاب،اوروزراء کی مشاورت سے پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے اور پولیس میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے،اور جرم اور جرائم پیشہ عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کاٹاسک دے کر پنجاب پولیس کی
سربراہی کا منصب انعام غنی کو سونپا گیاتھا،اور آئی جی پنجاب انعام غنی کی جانب سے چند ماہ سے آئے روز پولیس کے شعبہ میں اصلاحات کے بیانات سننے کو مل رہے ہیں،جس سے عوام میں امید کی کرن بندھی کہ اب پنجاب میں پولیس کا کلچر بدل جائے گا اور تھانوں و پولیس دفاتر میں تعینات افسران اور اہلکاروں کا رویہ بدل جائے گا، ایف آئی آر کا نظام آسان ہوجائے گا،اور مظلوم کو انصاف اور ظالم کو منطقی انجام تک پہنچانے میں پنجاب پولیس وہ کردار اداکرے گی
جو شاید پولیس پہلے ادا نہیں کر پا رہی،جس کی وجہ سے عوام میں پولیس بارے مختلف طرح کی رائے پائی جاتی ہے،کوئی پولیس پر تنقید کرتا ہے تو کچھ اچھے کام پر پولیس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، سو کئی سنگین واقعات میں پولیس نے جدید بنیادوں پر کام کرکے ملزمان کو فوری گرفتار کرکے فوری انصاف کر کے ملزمان کو منطقی انجام تک پہنچایا تو متعلقہ علاقوں کی عوام نے نہ صرف دل کھول کر ان پولیس افسران کوداد دی بلکہ نقد وطلائی تمغوں اور شیلڈز جیسے انعامات سے بھی نوازا،مگر ایسے پولیس افسران و ملازمین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہورہی تھے معاشرہ میں پولیس کے رویہ اور پنجاب پولیس اصلاحات کی تو بظاہر تو آئی جی انعام غنی اپنے تئیں پنجاب پولیس میں اصلاحات اور بہتری لانے کیلئے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں،اور کہہ رہے ہیں کہ کہ چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کوئی انسان نہیں دے سکتا،اس لئے آئی جی پنجاب نے تھانوں میں شفٹ کا نظام رائج کرنے کا عندیہ دیا ہے،تھانہ جات میں ایڈمن افسر لگانا بھی پولیس کے نظام میں بہتری لانے کے لئے اچھا شگون ہے،موجودہ آئی جی پنجاب نے تھانہ جات میں تشدد اور پولیس تشدد سے مبینہ ملزموں کی اموات بارے واضح کہا ہے
کہ جس تھانے کی حدود میں پولیس کے تشدد سے کسی بے گناہ کی موت ہوئی تو اس کے قتل کا مقدمہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کے خلاف بھی درج ہوگا جبکہ سرکل کا ذمہ دار ڈی ایس پی/اے ایس پی بھی واقعہ سے بری الذمہ نہیں ہوں گے اور ان کے خلاف بھی پولیس آرڈرز2002 کے سیکشن155سی کے تحت کاروائی ہوگی،آئی جی پنجاب انعام غنی کی کوششوں سے پنجاب حکومت نے پہلے مرحلہ میں چند روز قبل کئی اضلاع میں تھانہ جات میں بڑی مقدار میں نئی گاڑیاں بھی فراہم کردی ہیں
اور پولیس کے جوانوں کو نیا اسلحہ فراہم کرنے کی نوید بھی سنائی ہے،جبکہ ماضی میں پولیس کی کھٹارا گاڑیاں اور اکثریت ناقابل استعمال اسلحہ جرائم پیشہ عناصر کیلئے سود مند ثابت ہورہا تھا، آئی جی انعام غنی کی جانب سے آئے روز پولیس میں کوئی نہ کوئی اصلاح اور پولیس رویہ بدلنے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں، لیکن آئی جی پنجاب انعام غنی صاحب آپ کو یہ باور کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پنجاب پولیس کوایک عرصہ سے ہر برسر اقتدار حکومت اور حکمرانوں نے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا،پولیس میں سیاست اور سیاست دانوں کا بہت زیادہ اثر رہا،
پنجاب کے اکثریتی تھانوں کا نظام برسر اقتدار حکومت کے ارکان اسمبلیز یا ان کے کارندے یاایس ایچ اوز کے ٹاؤٹ چلاتے رہے ہیں ،ہردور میں برسر اقتدار سیاستدانوں کی اکثریت نے پولیس کو مہرہ کے طور پراستعمال کرکے اپنے مخالفین سے سیاسی انتقام لیا ،جناب آئی جی پنجاب پولیس انعام غنی صاحب گو کہ آپ پولیس کلچر کو بدلنے کا عزم رکھتے ہیں اور اپنے طور پراس سلسلہ میں کچھ کربھی رہے ہیں،لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ تھانہ کلچر سے بے
جاسیاسی مداخلت ختم کی جائے،ارکان اسمبلی چونکہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں انہیں عزت ضرور دی جائے مگر ان کے کہنے پر کسی کو بغیر کسی جرم کے انتقام کانشانہ بنانے والے تھانوں میں موجود سیاست دانوں کے پجاری پولیس اہلکاروں پر کڑی نظر رکھنے کیلئے چیک اینڈ بیلنس بڑھایا جائے،اور اگرثابت ہوجائے کہ کسی تھانہ میں سیاسی یا بیرونی مداخلت پر کسی افسر یا اہلکار نے کسی بے گناہ کیساتھ ظلم کرکے علاقے کے کسی وڈیرے یا سیاستدان کو راضی کیا ہے تو آپ جناب کو ایسے پولیس آفیسر کو نشان عبرت بنانا ہوگا
تب آئی جی پنجاب انعام غنی صاحب آپ اپنے نیک مقصد میں کامیاب ہو پائیں گے،ورنہ پنجاب پولیس کے کپتان آپ کا نام بھی پولیس کی تاریخ میں ماضی کے صوبہ کے پولیس کے کپتانوںکی طرح لکھا جائے گا تو پولیس میں اصلاحات کانعرہ تولگاتے رہے مگر عملی طور پر وقت کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں میں اپنی کرسی بچانے کیلئے بے بس ہو کر کھیلتے رہے، تو جناب آئی جی پنجاب پولیس صاحب اب بھی وقت ہے کہ صوبہ میں پولیس کے عرصہ دراز سے بگڑے نظام کو سدھارنے کیلئے کرپٹ اور جرائم سے پنپنے میں مدد دینے والوں خواہ وہ ان کا تعلق پولیس سے ہو یا کسی اور طبقہ سے سب کا بے رحم احتساب کر دیجئے،تاکہ آپ کا نام آنے والے وقت میں تاریخ میں اچھے لفظوں میں لکھا جاسکے،اور ہرطرف سے عوام نعرہ بلند کریں۔ کہ
“پاکستان زندہ آباد باد”
“پنجاب پولیس پائندہ آباد”