کیا مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام کو پھیلایا تھا؟ 243

ناشکرے ہم بھارت واسیوں کو سزاکے طور ملی ہے یہ سنگھی مودی حکومت

ناشکرے ہم بھارت واسیوں کو سزاکے طور ملی ہے یہ سنگھی مودی حکومت

فقط
احقر
محمدفاروق شاہ بندری

۔ نقاش نائطی
۔ +966504960485

اپنے وقت کی سونے کی چڑیا بھارت کو اپنی لوٹ کھسوٹ سے تباہ و برباد کرنے والے فرنگی انگریزوں سے، ہم بھارت واسیوں کو آزادی 1947 میں ملی تھی، لیکن گورے انگریزوں کے اس وقت تلوے چاٹنے والے، کالے فرنگی ان مہاسنگھیوں کی اولاد آج کے یہ سنگھی بی جے پی آرایس ایس والے اور اب بھارت کی دولت کو لوٹ لوٹ کر،خود عالم کے امیر ترین پونجی پتی بننے والے سنگھی برہمن گجراتی پونجی پتیوں سے، بھارت کو آزادی اب کب ملے گی؟

مہاتماگاندھی کی طرح کون ہمیں ان سنگھی برہمن وادی مودی یوگی کے وناش کال سے آزاد کرانے گا؟ 2014 اپنے وقت کی سب سے تیز گتی سے ترقی پذیر بھارت کو، جو اب ان سنگھی حکمرانوں کی غلط پالیسیز سے تباہ و برباد کرچکا ہے ان سنگھی حکمرانوں سے ہم 138 کروڑ بھارت واسیوان کو آزادی کب ملیگی؟

1947 سے 2014 تک، بھلے ہی ہم غربت سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے تھے لیکن ان پینسٹھ سالوں میں ہمارا غربت کا گراف بہت حد تک گراف تھا ہم بھارت واسیوں کی اکثریت کانگریس راج کے تعمیر شد ہزاروں مدرسوں اسکولوں کالج و یونیورسٹیز سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے، اور انہی کانگریس حکمرانوں کے بنائے بڑے بڑے اور مدھیاوتی سرکاری کارخانوں اور بی ایس این ایل جیسے تجارتی گھرانوں میں برسر روزگار رہتے

ہم بھارت واسی ایک حد تک آسودہ حال ہوچکے تھے۔ لیکن 2014 میں گجراتی سنگھی پونجی پتیوں کے بچھائے میڈیا مکر جال میں ہم 138 کروڑ بھارت واسی ایسے پھنسے، کہ جھوٹے مکار آرایس ایس بی جے پی مودی کے دکھائے،

“سب کا ساتھ سب کا وکاس” اور “اچھے دن کی آس” پر بھروسہ کرتے، بھگوان ایشور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے، ہم 138 کروڑ بھارت واسیوں نے، اچھے دن کے لئے اپنی طرف سے مکمل ساتھ بھی دیا تھا پھر یہ غربت کا گراف 1947 سے 2014 تک نیچے جو گر گیا تھا وہ اب 2021 تک 1947 سے پہلے والی پوزیشن تک کیسے پہنچ گیا؟جو مقام ترقی حاصل کرنےبھارت کو سابقہ پینسٹھ سال لگے تھے،چھ ساڑھے چھ سال کے اس مختصر عرصے میں، ہم نے اسے کیسے کھو دیا؟

چار سو سال لگے تھے مغل حکمرانوں کو بھی، بھارت کے مختلف حصوں ریاستوں صوبوں میں بٹے بکھرے نوابوں راجوں مہاراجوں کے بیج انکی انانیت اور ان کی سلطنتوں کے بڑا اور بڑا ہونے کا تماشہ بنتے دیکھتے بھارت کو، ایک لڑی میں پروتے شکتی سالی مہان اکھنڈ بھارت بنانے میں۔ اور مہاراجوں نوابوں اور بادشاہوں کی طرح مغل حکمران اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ بھی تو، اپنے باپ دادا کی چھوڑی مملکت مغلیہ میں موجود مال ثروت کے مزے لوٹتے،

اپنے بیوی بچوں کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزار سکتے تھے۔ لیکن اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ نے اپنے باپ دادا کی چھوڑی سلطنت مغلیہ کو اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک ایشور اللہ کا وردان تصور کر، اس کی امانت میں خیانت کرنے کے بجائے، اپنے 50 سالہ دورحکومت میں زیادہ تر سال گھوڑے کی پیٹھ پر دوڑتے انیک چھوٹے چھوٹے باغی طرز کے نوابوں راجوں مہاراجاؤں سے لڑتے لڑتے گزار کر نہ صرف اپنے وقت کا سب سے

بڑا وسیع و عریض چمنستان اکھنڈبھارت کی تعمیر کی تھی بلکہ اپنے باقی کے حکومتی دنوں میں خود اپنی محنت کی کمائی سے ٹوپیاں بنتے ہوئے اور قرآن مجید کو اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہوئے اور اسے مارکیٹ میں اسے بکواتے ہوئے، اپنی محنت کی کمائی سے لاپنے اور اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہوئے، اپنی زیرک حکمت عملی سے

وسیع و عرئض اکھنڈ بھارت کو عالم کے اور ملکوں کے بیچ اپنے 27% جی ڈی پی کے ساتھ، سونے کی چڑیا چمنستان بھارت، ایسا مشہور کرایاتھا کہ آج بھارت واسی روزی روٹی کمانے کھاڑی کے دیشوں کے علاوہ یورپ و آمریکہ جیسے جاتے ہیں اس وقت آورنگ زیب عالمگیر علیہ رحمہ کے زمام حکومت ھند میں، پورے عالم سے گورے انگریز و فرنچ اور عرب بھارت تجارت کرنے آنے لگے تھے۔

آج وہی سونے کی چڑیا بھارت انگریزوں کے ہاتھوں لٹے اور پوری طرح برباد ہونے کے باوجود، 1947 بعد آزادی سے 2014 کانگرئس راج میں،اپنی تیز تر رفتار ترقی پذیری سے پھر ایک مرتبہ، سب سے تیز گتی سے ترقی پزیر ملک بنتے بنتے 2030 تک عالم کی سربراھی کرنے لائق بننے والا ملک چمنستان بھارت، اب اس سنگھی مودی 6 سالہ زمام حکومت میں برباد و کنگال ہوتے ہوتے، عالم کے 200 ملکوں میں کیسے 167 ویں

مقام تنزلی تک پہنچ گیا ہے اس پر تدبر و تفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ دراصل 2014 سے پہلے ایک حد تک خوشحال ہم بھارت واسیوں کے ناشکرے پن کی وجہ ہی سے، بھگوان ایشور اللہ نے ہم پر بھگوان پرش جیسےدکھنے والے، لیکن حقیقت میں نازی ہٹلر جیسے وناش کاری حکمران 56″چوڑے سینے والےمودی جی کو ہم پر نازل کرتے ہوئے، ہمیں اپنی ناشکری کی سزا دی ہے

اب تو ہمیں اپنی غفلت اپنی ناشکری کا احساس ہونا چاہئیے اور اپنے پچھتاچاپ درشانے ہمیں ان نازی مودی یوگی حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنا چاہئیے اور جس طرح سے ہمارے پرم پوجیہ مہاتماگاندھی جی نے اس وقت دیش کے تمام ھندو مسلم سکھ عیسائی پارسی کو ساتھ لیکر اپنے پر امن احتجاج سے فرنگی آنگرئزوں سے بھارت کو آزادی دلوائی تھی ہمیں بھی ان کالےفرنگی انگریز، آج کےان سنگھیوں سے بھارت کو ایک مرتبہ پھر

آزادی دلوانی ہوگی۔ ہمیں ان سنگھئوں سے دیش کو آزاد کروانے کے لئے، ایک اور مہاتما گاندھی کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں،ورنہ ان سنگھیوں کے دلال بابا رام دیو اور اناہزارے جیسے مکار مہاتما گاندھی کا روپ دھارن کرتے ہوئے؛ ہمیں ایک مرتبہ اور دھوکہ دینے میں کامیاب رہیں گے۔ ہم جیسے بھی ہیں ھندو مسلمان سکھ عیسائی پارسی سب مل کے ان مودی یوگی سنگھی حکمرانوں کے خلاف یک جٹ ہوکر سڑکوں پر نکلیں گے تب ہی ہمیں گورے فرنگی انگریزوں کے دلال ان کالے سنگھی انگریزوں سے آزادی ملیگی

پورے عالم پر ایک حد تک حکمرانی کرنے میں کامیاب، عالم کےسب سے چھوٹے ملکوں میں سے ایک، عالم کے اور ملکوں کو موڈرن جنگی ہتھیار فروخت کرنے والا عالم کا سب سے بڑا پانچواں ملک یہود و اسرائیلی حکومت ، اس کی ترقی پذیری کے اعتبار سے، ہاتھی کے مقابلے مچھر کی حیثیت رکھنے والے فلسطینی گروپ حماس کے ہاتھوں حالیہ دنوں اٹھے تنازع اور حربی جھڑپ میں اسرائیلی حکومت کے فلسطین کو اپنی بمباری سے تقریبا تباہ و برباد کر چھوڑنے کے باوجود علی الاعلان اپنی ہار تسلیم کرتے جنگ بندی کا اعلان کرتے اسرائیلی تناظر میں؛

ایک بات اظہر من الشمس کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ آج کے دنوں میں ہمت واستقلال کے ساتھ آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو شکست فاش نہیں دیجاسکتی ہے اور مسلسل آزادی کے لئے لڑتے رہنے والوں کے سامنے وقت کی طاقت ور ترین اسرائیلی ریاست کو بھی معمولی دشمن حماس کے سامنے جھکنا پڑتا ہے۔ہم 138 کروڑ بھارت

واسی بھی اپنی قسمت کا رونا روتے خاموش بیٹھنے کے بجائے ان ظالم سنگھی مودی یوگی حکومت کے خلاف آزادی کی جنگ کے لئے سڑکوں پر نکلیں گے تو آج نہیں تو کل ہم 138 کروڑ بھارت واسیوں کو ان وناش کاری نازی پرائم منسٹر مودی مہاراج سے آزادی تو ملے گی۔ انشاءاللہ۔ وما علینا الا البلاغ
آج کے بھارت میں تقریبا 80% مدھئاوتی وغیرہ خاندانوں کے حال پر کسی شاعر کے لکھے چند اشعار

آنکھوں میں سپنے اور چاہت اڑان کی
ٹوٹے ہیں پنکھ پر کسی سے کہہ نہیں سکتے
کون واقف نہیں ہمارے حالات کا
جینا مشکل ہے پر مر نہیں سکتے
ہر موڑ پر گرتے ہیں ہم دھڑام سے
بکھرے ہیں بہت پر بہہ نہیں سکتے
آنکھوں میں سپنے اور چاہت اڑان کی
ٹوٹے ہیں پنکھ پر کسی سے کہہ نہیں سکتے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں