اشارے پر پتلیاں رُخ بدلتی ہیں !
تحریر:شاہد ندیم احمد
ملکی سیاست میں کچھ دنوں سے جہانگیرترین گروپ کابڑا چرچا ہے ،اس تناظر میں بہت سی قیاس آرائیاں بھی کی جاتی رہی ہیں ،تاہم اس گروپ کی وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے ملاقات کے بعد تمام قیاس آرئیاں دم توڑ گئیں،جہانگیر ترین گروپ نے اپنے تحفظات ختم ہونے کے ساتھ وزیراعلی پنجاب کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار بھی کر دیا ہے ، وزیراعلی پنجاب نے جہانگیر ترین گروپ کے ارکان اسمبلی سے جہاں آئندہ بجٹ میں ترقیاتی اسکیمیں دینے کا وعدہ کیا
،وہیں دیگر مسائل بھی ایک ماہ میں حل کرانے کی یقین دہانی کرادی ہے، وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے یہ بھی واضح کردیاہے کہ میرے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں، انتقام کی سیاست کرنا شیوہ نہیں، ہم نے کبھی کسی سے ناانصافی کی نہ آئندہ کریں گے۔
پاکستانی عوام کے لئے سیاسی پارٹیوں میں گروپ بندی کوئی نیا کھیل نہیں ہے،ملک کی سیاسی تاریخ ایسے جوڑ توڑ اور ریشہ دوانیوں سے بھری پڑی ہے،اس ملک میں پہلے ایک پارٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے اقتدارمیں لایا جاتا ہے، پھر اسے اطاعت و شعار بنائے رکھنے کے لئے سیاسی دباؤ کے ہتھکنڈے اختیار کئے جاتے ہیں،
اپوزیشن پارٹیاں جب تک حکومت کمزور کرنے کے لئے سیاسی جوڑ توڑ کررہی تھیں، اس وقت تک سب ایک پیج پر نظر آتے رہے ہیں ،لیکن اپوزیشن اتحاد میں پڑنے والے شگاف کے بعد عمران خان اطمینان کا سانس بھی نہ لے پائے تھے کہ جہانگیر ترین کی عدالتی پیشیوں پر پنجاب اور قومی اسمبلی کے ارکان کی بڑی تعداد اظہار یک جہتی کے لئے ساتھ جانا شروع ہو گئی ،اس کے بعد ملاقاتیں ،عشائیے ہوئے لگے اور جہانگیر ترین کے ساتھ ناانصافی کے خلاف سخت احتجاج کی بازگشت سنائی دینے لگی۔اس گروپ نے اپنا سیاسی دبائو بڑھاتے ہوئے حکومت پر واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں رہنے کے لئے اپنی ہی پارٹی کے ناراض ارکان کے ساتھ مفاہمت کرنا ہوگی۔
اس مفاہمت کا پہلا باقاعدہ اظہار چند ہفتے پہلے جہانگیر ترین کے حامی ارکان سے وزیر اعظم کی ملاقات تھی، اگرچہ اس ملاقات کا سرکاری طور پر یہی تاثر دیا گیا کہ وزیر اعظم نے واضح کردیا ہے کہ کوئی احتساب سے بالا نہیں ہے
اور جہانگیر ترین کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، لیکن جہانگیرترین حامی گروپ سے ملاقات ہی عمران خان کی کمزوری اور اس اعلان سے انحراف تھا کہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے اورنہ ہی انہیں کوئی بلیک میل کرسکتا ہے،جبکہ اب واضح اشارے دیے جارہے ہیں کہ درپردہ جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ افہام و تفہیم کی جاچکی ہے
کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور جن مقدمات پر تفتیش ہورہی ہے، وہ بھی معمول کے مطابق اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے ،جہانگیر ترین نے عمران خان کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں انہیں سوچنا ہے کہ اپنا اقتدار بچانا ہے یاکہ اپنی شہرت کو داغدار کرنا ہے۔ایک طرف عمران خان بار ہا اپنا بیانیہ دہرا رہے ہیں کہ سارے مافیا ز ان کے خلاف اکٹھے ہو بھی جائیں تواین آر او نہیں دیں گے ،جبکہ دوسری طرف پارٹی کے
اندرجہانگیر ترین گروپ سیاسی دبائو بڑھا کر این آر او دینے پرمجبور کررہا ہے ، اس پر شیخ رشید احمد کا کہناہے کہ عمران خان اتنا بھی بھولا نہیں، جتناکہ لوگ انہیں سمجھتے ہیں، انہیں سب معلوم ہے کون کیا کھیل کھیل رہا ہے اور کہاں سے اشارے مل رہے ہیں،تاہم حکومت کیلئے پارٹی میںبڑھتے اختلافات اور رنگ روڈ سمیت دیگر اسکینڈلز میں قریبی دوستوں پر الزامات واضح اشارے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے، حکومت اور پارٹی میں بڑھتے
اختلافات واضح کررہے ہیں کہ عمران خان کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کے اہداف میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں،جہانگیر ترین گروپ کی ہونے والی ذاتی مفاہمت بھی وقتی طور پر ہی چلے گی ،مگر آئندہ آنے والے دنوں میں انہیں حکومت پر دبائو کیلئے دوبارہ استعمال بھی کیا جاسکتا ہے ۔اس بدلتی صورت حال میںوزیر اعظم کو اپنی اتھارٹی بحال رکھنے اور حکومت کو فعال بنانے کے لئے پارلیمنٹ سے مکمل تعاون اور اپوزیشن کے ساتھ اشتراک عمل وسیع کرنے کی ضرورت ہے، اس کے برعکس عمران خان سیاسی الزام تراشیوںاور شہباز شریف کی
بیرون ملک روانگی کو ناکام بنانے میں اپنی صلاحیت صرف کرنے میں کوشاںہیں،وہ ابھی تک سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ ان کی حکومت کا اصل مسئلہ اپوزیشن یا پریشر گروپ نہیں،بلکہ ملکی معیشت کی دگرگوں حالت ہے، عوام بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ ہیں اور فوج مسلسل دفاعی اخراجات میں کمی پر سر پکڑے بیٹھی ہے، حکومت نے ایک کے بعد ایک وزیر خزانہ تبدیل کرکے دیکھ لیاہے کہ کسی کے پاس بھی فوری صورت حال تبدیل کرنے کا کوئی قابل عمل واضح منصوبہ نہیں ہے۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی معاشی اورسیاسی صورت حال بہتر بنانے کیلئے مواثراقدامات کرے ،تاہم اس کی آڑ میںمنتخب حکومت کمزور کرنے یاسیاسی جوڑ توڑ اور اندرون خانہ سازشیںقابل قبول نہیں ، ملک میں جمہوری تسلسل کے لئے ضروری ہے کہ حکومت کوکسی سیاسی پریشر گروپ کے دبائو میں لانے کی بجائے اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے،
لیکن اس کے ساتھ حکمرانوں پر بھی سیاسی یگانگت و مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملک لوٹنے والوں کا احتساب نہ کیا جائے یا کسی کو این آر او دیا جائے ،لیکن احتساب کے نام پر انتقامی سیاست سے گریزکرنا چاہئے ،حکومت کے اندر سے اٹھنے والا طوفان خبر دے رہا ہے کہ وزیر اعظم نے فوری طور سے اپنی غلطیوں کا ادراک نہ کیا اور اصلاح احوال کے لئے واضح اشارے نہ دیے توایساوقت آنے میں دیر نہیں لگے گی کہ جب انگلی سے تار ہلتی ہے اور سیاسی پُتلیاں اپنا رخ بدلنے لگتی ہیں۔