کیا مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام کو پھیلایا تھا؟ 257

اچھا عمل کسی سے بھی ملے اس پر عمل پیرا رہا جائے

اچھا عمل کسی سے بھی ملے اس پر عمل پیرا رہا جائے

نقاش نائطی
۔ +966504960485

بھٹکل کا تعارف بھٹکل تشریف لائے ایک غیر بھٹکی سے

مختلف مذہبی فرقوں سیاسی دھڑبندیوں میں بھٹکی ہوئی بھارتیہ مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کے لئے،عرب کے مختلف علاقوں سے تجارت کے لئے آکر یہیں کرناٹک کے ساحل سمندر جنوبی بھارت کےمختلف علاقوں میں بس گئے عربی النسل آل نائط کے بزرگوں نے، ہزار بارہ سو سال قبل، اس زمانہ کفر میں اپنے قبیلے کےلوگوں کے عائلی مسائل حل کرنے، جو محکمہ شرعیہ اس وقت یہاں اس علاقے میں قائم کی تھی آج اس پر ہزار بارہ سو سال گزرنےکے باوجود،

بھٹکلی مسلمانوں نے اپنے عائلی اختلافات کو صد فیصد انہی محکمہ شرعیہ عدالتوں سے حل کرواتے ہوئے، جو بہترین مثال قائم کی ہے۔ آج بھی ان شرعی عدالتوں کی اہمیت معاشرے میں موثر ہونے کو،جس بہتر انداز واضح کیا ہے بھارت کےمسلم اکثریتی مختلف علاقوں میں، اسی طرح سے عائلی مسائل کو اپنے اپنے یہاں قائم محکمہ شرعیہ عدالتوں میں حل کرواتے ہوئے، مقامی حکومتی عدالتوں پر پڑنے والے بوجھ میں کمی کرتے ہوئے، اپنے اپنے طور حتی المقدور حکومت کی مدد و نصرت کرنی چاہئیے۔

کچھ سال قبل جب بھٹکل میں مسلم پرسنل بورڈ کا انتظامی اجلاس منعقد ہوا تھا تو اس وقت مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داران بھی بھٹکل محکمہ شرعیہ کے، ہزار سال سے قائم رہنے اور صد فیصد بھٹکلی احباب کے ان محکمہ شرعیہ عدالتوں سے استفادہ حاصل کرنے کے، قدیم و جدید ریکارڈ دیکھ کر انگشت بدندان رہ گئے تھے

اور اپنے تاثرات بھی قلم بند کئے تھے۔ کاش کہ اسی طرز پورےبھارت کے ہم 25 سے30 کروڑ مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں ایسے اسلامی محکمہ شرعیہ قائم کرتے ہوئے، اپنے اپنے عائلی مسائل اسلامی شرعی عدالتوں سے حل کروائیں تو ایک طرف حکومت سے تعاون کی ایک نادر مثال بھی قائم ہوسکتی ہے بلکہ عدالتوں اور وکلاء پر بے دریغ خرچ کئے جانے والے ہزاروں کروڑ روپیوں کو بھی مسلم معاشرے کے دیگر فلاحی کاموں میں صرف کیا جاسکتا ہے

شہر بھٹکل و اطراف بھٹکل میں ہزار بارہ سو سال قبل سے معاشرے میں اسلامی تعلیم عام کرنے کے لئے مکاتب گلی گلی ہر علاقوں میں نہ صرف قائم تھے بلکہ اسے ایک مرکزی نظم سے منسلک کرتے ہوئے ایک منظم دعوتی عمل سے جوڑ دیا گیا تھا۔ یہاں تک کے معاشرے کے دیگر عائلی مسائل کو حل کرنے کے لئے بھی جہاں مختلف علاقوں میں ادارے قائم تھے اس میں بھی مرکزیت قائم تھی آٹھ نو سو سال قبل مشہور عربی النسل سیاح ابن بطوطہ علیہ الرحمہ جب بھارت کے دورے سیاحت پر آئے ہوئے تھے تو جنوبی بھارت بھٹکل و آس پاس بھٹکل، خصوصا

اس وقت اہل نائط کے مرکزی علاقے اس وقت کے ہونور یا آج کے ہوناور کے قریب ہوسپٹنم اہل نائط کے مرکزی شہر کا دورہ کرتے ہوئے یہ بات اپنی مشہور کتاب سفرنامہ ابن بطوطہ میں ان اہل نائط کے مسلم علاقوں میں گلی گلی قرآن و اسلامی تعلیمات سکھانے والےمکاتب کے عام ہونے اور بعد مغرب ہر گھر سے، درود دیگر اذکار پڑھنے کی آوازیں آنے کا تذکرہ کیا ہے

اٹھارویں صدی میں غدر تحریک بعد بھارت میں علماء ھند پر انگریز حکومت کے ظلم وستم بعد سرسید علیہ الرحمہ نے شمالی ھند علیگڑھ میں مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کی جو بنیاد رکھی تھی اس پر عمل پیرا بھٹکلی مسلمانوں نے 1919 میں شہر بھٹکل میں اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول کی بنیاد رکھتے ہوئے،سرسیداحمد کے مسلمانان ھند میں تعلیمی آگہی مشن کی شروعات کرتے ہوئے، جنوبی ھند میں انگریزی تعلیم کو عام کیا تھا۔ آج علاقے میں مختلف مکتبہ فکر کے عصری تعلیمی اداروں کی موجودگی باوجود عصری تعلیم کو بھی ایک مرکزیت کے دائرے میں سمونے یا پرونے کوشش کی گئی ہے

سیاسی اقتصادی رفاعی امدادی امور پر مشتمل، معاشرتی مسائل کے حل کے لئے 1916 میں قائم مجلس اصلاح و تنظیم کی خدمات شہر بھٹکل کی سب سے نمایاں خدمات تصور کی جاتی ہیں۔ آج کے مسلمانوں میں تفریق پیداکر، اپنا مفاد حاصل کرتے پرفتن سنگھی منافرتی تناظر میں بھی، الحمد للہ نہ صرف علاقائی بلدیاتی یا پنچایتی بلکہ ریاستی و مرکزی عام انتخابات میں بھی، علاقے کے مسلمان مجلس اصلاح و تنظیم کے مرکزی فیصلہ کو، معاشرے کے لئے حرف آخر مانتے ہوئے، تقریبا صد فیصد ووٹ ایک ہی پالے میں ڈالا کرتے ہیں۔ ہزار اختلاف باوجود یہی مرکزیت کی آج بھارت بھرکے مسلم علاقوں کی ضرورت ہے ہم میں جب تک مرکزیت قائم نہیں ہوگی ہم۔خاطر خواہ ترقی کرنے سے رہ جائیں گے۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں