کرپشن فری سوسائٹی کی سوچ !
تحریر:شاہد ندیم احمد
پاکستان میں کرپشن کے بڑھتے ہوئے رجحانات کی ایک بڑی وجہ منتخب حکومتوں کا غیر سنجیدہ رویہ رہا ہے،ہر دور اقتدار میں کرپشن خاتمے کی بات ضرور کی جاتی رہی ہے ،مگر پارلیمنٹ کو مضبوط احتسابی ادارے کے قیام کیلئے بروئے لایا گیا،نہ ہی قانونی اصلاحات کی طرف توجہ دی گئی ، دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی میں ایک مضبوط احتسابی کمیشن کی بات ضرور کی گئی، لیکن برسراقتدار آنے کے بعد کوئی پیش رفت نہیں کی گئی،
لہٰذا سب کو قومی احتساب بیورو پر ہی اکتفا کرنا پڑاہے۔ موجودہ حکومت نے بھی برسراقتدار آنے کے بعد موثر اور بے رحم احتساب کے دعوے تو کئے، مگر بلا امتیاز احتسابی عمل کو یقینی نہیں بنایا جاسکا ،جس کے باعث ادارے نیب پر تحفظات کا اظہار ہی نہیں ،بلکہ خاتمے کا مطالبہ کیا جارہا ہے،نیب کے خاتمے کا مطالبہ کرنیوالی اپوزیشن جماعتیں ابھی تک بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کے اپنے ادوار میں نیب کے حوالہ سے قانون سازی کیوں نہ کی گئی اور اب احتساب کا شکنجہ ان کی لیڈرشپ کے گرد کسا جا رہا ہے تو نیب پر ہی برستے نظر آ تے ہیں انہیں احتسابی عمل زیادہ موثر، شفاف اور آزادانہ بنانے کی بات کرنی چاہیے ،مگر ان کا زور نیب کے خاتمہ کی جانب ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ادارے نیب کی کار کردگی مثالی نہیں رہی ہے ،اپوزیشن کو جہاں امتیازانہ رویئے کا شکواہ ہے ،وہیں حکومت بھی نیب کار کردگی سے مطمیََن نظر نہیں آتی ہے ، اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا کہناہے کہ نیب 23 سال سے کرپشن کے خلاف کام کر رہا ہے، لیکن ہم کرپشن پر قابو نہیں پا سکے ،کیو نکہ
ہم صرف چھوٹے لوگوں کو پکڑتے ہیں،طاقتور لوگ جب تک قانون کے نیچے نہیں آئیں گے، اس وقت تک کرپشن کا خاتمہ اورملکی ترقی ممکن نہیں ہے،دوسری جانب چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاویداقبال نے کہا کہ احتساب سب کیلئے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ہم پاکستان کو کرپشن فری بنانے کیلئے پُرعزم ہیں، نیب کی انسداد بدعنوانی کی حکمت علمی کے شاندار نتائج سامنے آئے ہیں،نیب نے مثبت تنقید کا ہمیشہ خیرمقدم کیاہے، تاہم نیب کے خلاف منظم پراپیگنڈا کیا جارہاہے۔
چیئرمین نیب جتنا مرضی ادارہ کے شاندار نتائج کی بات کریں، وزیراعظم کی رائے ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جس کا مشاہدہ ہر پاکستانی بچشم ِخود کررہا ہے، ایک طرف طاقتور لوگ کمزور تفتیش کے باعث آزادگھوم رہے ہیں،
جبکہ دوسری جانب کمزور لوگوں سے رقم وصولی کو شاندار نتتائج سے جوڑا جارہا ہے،وزیر اعظم کا کہنا بجا ہے کہ ہم چھوٹے لوگوں کو پکڑتے ہیں،جبکہ کرپشن ختم کرنے کا چینی فارمولہ بڑے لوگوں کو گرفت میں لانا ہے ،چین کرپشن پر قابوپانے میں کیوں کامیاب رہا اور ہمارے ملک میں تقریباً چوتھائی صدی سے قومی احتساب بیورو کی موجودگی کے باوجود ایسا کیوں نہیں ہوسکا؟ یہ سوال بے لاگ اور سنجیدہ تجزیے کا متقاضی ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ نیب کے قیام کے پس منظر اور محرکات کو نگاہ میں رکھا جائے، اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد نیب کی تشکیل جنرل مشرف کے دور میں بظاہر کرپشن کے خاتمے کے نام پر عمل میں آئی تھی، لیکن یہ کوئی راز نہیں کہ اس دور میں اسے فی الاصل سیاسی شخصیات کی جماعتی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لیے استعمال کیا گیا، مشرف کابینہ میں متعدد ایسے سیاستداں شامل رہے
کہ جن کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم کیے گئے، لیکن حکومت کا ساتھ دینے کے بعد یہ مقدمات آگے نہیں بڑھے اور اسی طریق کار کے تحت حکومت کی بیساکھی کے طور پر پوری ایک سیاسی جماعت وجود میں لائی گئی،مشرف دور کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی منتخب جمہوری حکومتوں کے پاس موقع تھا کہ پارلیمان میں قانون سازی کرکے نیب کو حقیقی معنوں میں مکمل طور پر آزاد، غیرجانبدار، شفاف اور بے لاگ احتسابی ادارہ بنادیا جاتا اور اس کا دائرہ کار تمام ریاستی اداروں اورقومی زندگی
کے تمام شعبوں تک وسیع کردیا جاتا ،لیکن ان حکومتوں نے بظاہر اپنی سیاسی مصلحتوں اور مفادات کی بنا ء پر یہ قدم اٹھانے سے گریز کیاہے۔
موجودہ دور حکومت میں بھی نیب کاادارہ بالعموم حکومت کے سیاسی مخالفین ہی کے خلاف سرگرم ہے، جبکہ احتسابی عمل معتبر اسی صورت میں ہی ہوسکتا ہے کہ جب اس کا اطلاق مکمل غیرجانبداری کے ساتھ سب پر یکساں کیا جائے، ایسا نہ ہونے ہی کے باعث نیب کے کردار پر ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی بارہا سخت الفاظ میں گرفت کرچکی ہیں، حکومت کے سیاسی مخالفین پر نیب کے قائم کردہ کئی مقدمات عدالتوں میں بے بنیاد ثابت ہوچکے ہیں،متعدد کیسوں میں ملزمان کے ریمانڈ میں بار بار توسیع کے باوجود فردجرم عائد کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا
جاسکا ، جس سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ یہ مقدمات ٹھوس شواہد کے بغیر سیاسی مقاصد کی خاطر قائم کرائے گئے تھے۔ اس صورت حال نے نیب کا اعتبار بری طرح مجروح کیا ہے، جبکہ ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کے لیے ضروری ہے کہ احتسابی عمل کو حکومت اور طاقتور ریاستی اداروں سمیت ہر طرح کی مداخلت اور دبائوسے مکمل طور پر پاک رکھا جائے اورنیب کو سیاسی مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ہر گنجائش کاقانوناً سدباب کیا جانا چاہئے۔
کرپشن فری سوسائٹی کیلئے وزیراعظم کی مثبت سوچ اپنی جگہ، مگر اس کیلئے انہیں عوام کا اعتماد بھی مضبوط بنانا ہوگا ،عوام چاہتے ہیں کہ ملک میں قو می خزانہ لوٹنے والاچور، ڈاکو سز ا سے بچ نہ پا ئے ،لیکن اس کے ساتھ انہیں اپنے روزمرہ مسائل سے نجات کی بھی فکر لاحق ہے، وزیراعظم کو کرپشن کے خاتمے کے
ساتھ حکومتی گورننس بہتر بنانے کی جانب بھی توجہ مرکوز کرنا ہوگی، احتساب کیلئے ریاستی آئینی ادارہ نیب کی صورت میںموجود ہے جو بقول چیئرمین نیب کرپٹ عناصر سے نمٹنے کیلئے پُرعزم ہے، اس لئے سسٹم میں رہتے ہوئے تمام ریاستی آئینی اداروں کومیرٹ پر اپنا اپنا کام کرنے دیا جائے تو ملک میں کرپشن کے خاتمے کے ساتھ میرٹ کا بول بالا اور آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے۔