183

مادیت سے ماوراء جذبے

مادیت سے ماوراء جذبے

از قلم : عصمت اسامہ

(بیاد خادم حسین رضوی اور شیخ احمد یاسین شہید)

کچھ موضوعات پر لکھناباعث عزت اور شرف ہوتا ہے ان میں سے ایک موضوع “ناموسِ رسالت کا تحفظ “ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہمارے ایمان کا محور و مرکز ہے جنہوں نے اللہ تعالی’ کا کلام ہم تک پہنچایا اور اس پر عمل کرکے دکھایا ، وہ مہربان ذات جو ہمیشہ حق کا پیغام پہنچانے کے لیے سرگرداں و بے قرار رہی ، وہ ہستی جو امت کی بخشش کیلئے سجود میں زار وزار رہی اور جس کی شفاعت روز حشر میں ذریعہء نجات ٹھہری امت مسلمہ کبھی اپنے نبی ءمہربان کا حق ادا نہیں کرسکتی ۔رسول اللہ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ جو

ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے ہے اس کا تذکرہ ایمان افروز بھی ہے اور روح پرور بھی ! سخت سردی اور جاڑے کے موسم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت آرام فرما ہیں کہ خبر ملتی ہےکہ مدینے میں قافلہ آیا ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے ہیں تو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روکتی ہیں کہ آپ کو بخار ہے ، رات کا وقت ہے آپ قافلے کے پاس صبح چلے جائیے گا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شاید شاید صبح تک وہ قافلہ چلا جائے یاپھر میں ہی صبح تک زندہ نہ رہوں اور اسی حالت میں نہ اپنے بخار کو دیکھتے ہیں

نہ سخت سردی اور نہ رات کا وقت ۔تشریف لے جاتے ہیں کہ قافلہ روانہ ہونے والا ہے ۔ ساربانوں سےفرماتے ہیں کہ ذرا ٹھہرو تو قافلے والے رکنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ رسالت کا مشن اور ذمہ داری کی شدت کا تصور کیجیے تو آنکھیں نم کرنے والامنظر ہے۔ آپ ایک اونٹ کے ساربان کو پیغام توحید اور رسالت پہنچاتے ہیں پھر دوسرے کو پھر تیسرے کو اور اسی طرح کے قافلہ چل پڑا ہے اور رسالت مآب ساتھ دوڑ تے جاتے ہیں وہ سو اونٹوں کا قافلہ ہے

تو نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم سو ساربانوں تک اس کلمہ ءحق کو پہنچا دیتے ہیں آپ پر ہزاروں درود و سلام ۔فداک امی وابی ۔ یہ آج ہم تک دین اسلام پہنچا ہے ،یہ اتنی آسانی سے نہیں پہنچا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے سچے پیروکاروں نے بڑی مشکلات اور تکالیف اٹھائی ہیں۔
چشمِ فلک دیکھ رہی ہے کہ منظر بدل گیا ہے لیکن کوئی قدر مشترک باقی ہے !سخت سردی اور جاڑے کی فضا میں نبیء مہربان کے امتی سنت نبوی سے مزین باریش چہرے سلام پڑھتے ہوئے حضور کی ناموس کی حفاظت کے لئے

میدان میں اترے ہیں فرانس میں گستاخانہ ویڈیوز سرکاری عمارات پر چلانے کے خلاف ،فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے نکلے ہیں ، ان کا حکومت وقت پاکستان سے بس یہی مطالبہ ہے کہ ناموس رسالت کے تحفظ کی خاطر فرانس کے گستاخ ملک کے سفیر کو پاکستان سے نکال دے لیکن ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے کہ حضور کے امتیوں پر آنسو گیس کی شیلنگ کردی جاتی ہے۔ فائرنگ کی جاتی ہے بہت سے حافظ اور قراء حضرات کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے

لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی خاطر دھرنا دئیے رہتے ہیں۔ٹھنڈی ہواوں اور موسم کی شدت برداشت کرتے ہیں ،بے سروسامانی کی حالت میں سڑکوں پر سوتے ہیں لیکن اس وقت تک دھرنا جاری رکھتے ہیں جب تک حکومت ان کے ساتھ معاہدہ نہیں کر لیتی کہ ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں گے ۔ سلام ہے خادم حسین رضوی صاحب اور ان کے پیروکاروں پر جو” لبیک یا رسول اللہ” کے نعرے کی گونج کے ساتھ کفر کی فرعونیت کوللکارنے کے لئے فیض آباد دھرنے میں ڈٹے رہے۔ جو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لئے سینہ سپر ہو گا وہ قابل فخر و اکرام ہے ۔ خادم حسین رضوی صاحب جو لاہور میں محکمہ اوقاف کی مسجد میں خطیب تھے ۔

جب نواز حکومت نے عاشق رسول ممتازقادری کو پھانسی دی تو انھوں نے حکومت کے اس اقدام پر تنقید کی جس کی وجہ سے انہیں سرکاری نوکری سے فارغ کردیا گیا ۔ آپ “فدایان ختم نبوت پاکستان اور مجلس علماء نظامیہ” کے مرکزی امیر تھے اور کئی اداروں کے سرپرست و نگہبان تھے۔ وہ 2009ء میں ایک حادثے کی وجہ سے معذور ہو گئے اور ویل چیئر تک محدود ہوگئے تھے۔ 2017 ء میں نواز حکومت نے ایک پارلیمانی بل میں حکومت کی طرف سے “قانون ختم نبوت” کی ایک شق میں الفاظ بدل دئیے تھے جس پر خادم حسین رضوی نے

2017 میں فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دیا تھا جس کی وجہ سے اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو استعفیٰ دینا پڑا تھا، اس کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے موجودہ دور میں آسیہ مسیح نامی ملعونہ نے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور ہائی کورٹ نے اسے سزائے موت سنائی لیکن سپریم کورٹ نے اس کو رہا کردیا تو تحریک لبّیک نے ملک گیر احتجاج کیا اور ان کے کئی پیروکاروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا ۔(بحوالہ وکی پیڈ یا )۔
بے شک خادم حسین رضوی صاحب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر جان قربان کردی اور ان کے جنازے پر لاکھوں مسلمانوں کی شرکت نے یہ واضح کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی خاطر پاکستانی عوام ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہے ۔ اب یہ حکومت پاکستان کا اولین فریضہ ہے کہ وہ فرانس کے سفیر کو فوری طور پر ملک بدر کر دے۔ خادم حسین رضوی صاحب اپنی جان کی قربانی دے کر اس ایشو کو قومی اور عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ اللہ پاک ان کی شہادت کو قبول فرمائے۔ انہوں نے اپنی

کمزوری اور معذوری کو اپنے عظیم الشان مقصد کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا ۔ خادم حسین رضوی صاحب نے عالم اسلام کے ایک اورعظیم المرتبت رہنما شیخ احمد یاسین شہید کی یاد بھی تازہ کر دی ہے ۔ مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس جو کئی سالوں سے یہودیوں کے غاصبانہ تسلط میں ہے،ویل چئر پہ بیٹھے شیخ احمد یاسین نے فلسطین کے مسلمانوں میں اپنے جذبہء ایمانی کی طاقت سے ایک نئی روح پھونک دی انہوں نے

ایک انٹرویو میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” ہم نہ موت سے ڈرتے ہیں نہ کسی کے سامنے جھکتے ہیں ۔ ہمارے سامنے بس ایک ہی راستہ ہے جب اپنا قومی وجود خطرے میں ہوتو ہر مرد عورت بچے اور بوڑھے پر مزاحمت لازمی ہو جاتی ہے ۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ظلم ہوتا رہے تو ہم کسی دوسرے سیارے کی مخلوق بن کر چپ چاپ اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں ! “اور یہی فارمولا وہ پوری امت مسلمہ کو دے گئےہیں

۔ شیخ احمد یاسین نے بزرگی اور نظر کی کمزوری کے باوجود “حماس” تنظیم قائم کی ۔ اس کے مقاصد میں فلسطین کی ازادی اور فلسطین کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ، غاصب اسرائیلی حکومت کا خاتمہ کرنا اور فلسطین میں اسلامی مملکت کا قیام شامل تھا اور چشم فلک نے دیکھا کہ ایسا معذور شخص جو اپنے جسم کو حرکت دینے کی طاقت نہیں رکھتا تھا وہ اپنے جذبہ ایمانی کی بدولت پوری قوم کو حرکت میں لے آیا!
شیخ احمد یاسین کے ساتھ نظریاتی جنگ میں جب صیہونی طاقتیں ناکام ہوگئیں تو انہوں نے شیخ کو فضائی طیاروں سے میزائل داغ کر شہید کردیا ۔ 1999ء میں اپنے ایک انٹرویو میں شیخ احمد یاسین نے اپنے علم کی بدولت یہ پیش گوئی کی تھی کہ 2027ء تک اسرائیل صفحۂ ہستی سے مٹ جائیگا(ان شاءاللہ )
۔ خادم حسین رضوی شہید اورشیخ احمد یاسین شہید نہ صرف اپنی عوام کے لئےبلکہ پورے عالم اسلام کے لئے ہمت، جرات، غیرت اور ولولہء ایمانی کا استعارہ ہیں !
#فکرونظر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں