نفاذ اُردوکا عوام پر احسان!
تحریر:شاہد ندیم احمد
دنیا میںخود دار با وقار قومیں ہمیشہ اپنی تہذیب و ثقافت، اپنی زبان کو سینے سے لگا کر رکھتی ہیں، اس کی قدر اور اس پر فخر کرتی ہیں، دنیا میں جن اقوام نے بھی ترقی کے مدارج تیزی سے طے کئے ہیں، سبھی نے ہمیشہ اپنی ثقافت اور قومی زبان کو فوقیت دی ہے،لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ گنگا اُلٹی بہتی ہے ،یہاں اپنی قومی زبان کی بجائے انگریزی کو ترقی کا زینہ سمجھا گیا ہے ،ہم زبانی کلامی اردو قومی زبان اور اپنافخر قرار دیتے ہیں،مگر عملی طور پر معدودے
چند لیڈروں‘صدور اور وزرائے اعظم کے علاوہ کبھی کسی نے توجہ نہیں دی کہ قومی زبان کو ملکی و غیر ملکی سطح پر ذریعہ اظہار بنایا جائے، وزیر اعظم عمران خان نے اپنی قومی زبان کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے ہدایات جاری کی ہیں کہ ان کی تمام تقریبات میں اردو زبان استعمال کی جائے گی،وزیراعظم کی جانب سے قومی زبان کے استعمال کا عزم نہ صرف ملکی سطح پر قومی زبان کی ترویج و ترقی اور اس کی ثقافتی زندگی میں تبدیلی کا باعث بنے گا ،بلکہ عالمی سطح پر بھی اردو کو دوسری زبانوں کے مقابل اپنا مقام بنانے کا بھی موقع ملے گا۔
اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا سے رابطے اور بین الاقوامی معاملات کے ساتھ علوم و فنون پر دسترس حاصل کرنے دیگر اہم زبانوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے ،لیکناس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی قومی زبان کی افادیت کو نظر انداز کردیا جائے ،دنیا دیگر علوم و فنون کو اپنی زبان میں منتقل کرکے استفادہ کررہی ہے،مگر ہم ان کی زبانیں سیکھنے میںلگے ہوئے
احساس کمتری کا شکار بھی ہوتے جارہے ہیں،اس احساس کمتری کو دور کرنیاور اپنی قومی زبان کے فروغ کیلئے بہت سی کائوشیں کی جاتی رہی ہیں ،مگر کوئی خاطر خواہ نتایج نہیں نکل سکے ہیں، عدالت عظمیٰ کے سابق منصفِ اعلیٰ جواد ایس خواجہ نے 8 ستمبر 2015 ء کو ایک فیصلے کے ذریعے وفاق اور صوبوں کو اردو کے دفتری زبان کے طور پر نفاذ کی ہدایت کی تھی، لیکن چھ سال گزرنے کے بعد تاحال اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔
سیاسی قائدین اپنے مفاد میں آئین کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں ،اپنے مفادات کے حصول کیلئے آئین کی شقیں بیان کرتے ہیں ،مگر قومی زبان کے نفاذ کیلئے کبھی کسی نے آئین دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے ، 1973 ء کے دستورِ پاکستان کی شق 251میں طے کیا گیا ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور آئندہ دس سے
پندرہ برس میں بطور دفتری زبان نافذ کردیا جائے گا، لیکن پانچ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اردو کو دفتری زبان کا درجہ نہیں مل سکاہے۔ اردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کے لیے کئی ادارے بھی قائم کیے گئے، لیکن اردو زبان اپنے حق سے محروم ہی رہی ہے، اردو دنیا کی واحد زبان ہے کہ جسے ایک ملک میں قومی زبان کا درجہ تو حاصل ہے، لیکن ملک میں دفتری معاملات میں اُردو زبان کا استعمال ممنوع ہے۔
اس ملک کی
غالب اکثریت انگریزی سے ناآشنا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے قومی اداروںمیں خط و خطابت انگریزی میں ہورہی ہے،حتاکہ سڑکوں پر لوگوں کی رہنمائی کے لیے نصب بورڈ صرف انگریزی زبان میںلگائے جارہے ہیں، دفاتر اور بینکوں کے باہر کئی ہدایت نامے بھی صرف انگریزی میں لکھے ہوتے ہیں،دنیا میں کوئی بھی زبان صرف الفاظ و تراکیب کا مجموعہ نہیں ہوتی ،بلکہ تہذیب و تمدن کے ان حوالوں کی بھی امین ہوتی ہے، جوکہ اس معاشرے کی تاریخ و اقدار کا پتا دیتے ہیں، لہٰذا اپنی زبان سے دوری تہذیب و تمدن کے ان حوالوں سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔
پاکستانی قوم صدق دل سے غور کرے تو ہماری نئی نسل ایک ایسی راہ پر گامزن ہے کہ جہاں شستہ اور نفیس اردو میں بات کرنا بھی میسر نہیں ہے،دوران گفتگو کوئی ضرب المثل یا محاورے کا استعمال تو دور کی بات اردو میں گنتی تک نہیں آتی ہے، لیکن اس پر انہیں کو ئی شر مندگی نہیں ہے ،کیو نکہ ان کی نظر میں اپنی زبان سے زیادہ انگریزی زیادہ اہم ہے
،اگرانگریزی زبان اتنی ہی اہمیت کی حامل ہوتی تو ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح ہمیں ضرور انگریزی زبان سیکھنے اور بولنے کی تلقین کرتے، مگر انھوں نے ایسا کوئی فرمان جاری نہیں کیا ہے، کیا ہم اپنے قائد سے زیادہ دوراندیش ہیں؟ جو غیر کی زبان سیکھتے ہوئے اپنے قومی وقار اور اپنی قومی زبان کو مسخ کرنے پر تلے ہیں۔
پاکستان کی قومی زبان اپردو ہونے کے ساتھ سرکاری زبان بھی اردو ہونی چاہئے ،وزیر اعظم کا اپنی تقریبات میں اُردو کا نفاذ قابل ستائش ہے ،تاہم حکومت کی جانب سے اُردو زبان کو سرکاری زبان بنانے کیلئے پیش رفت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، ایک مشترکہ زبان کے بغیر کوئی قوم پوری طرح متحد رہ سکتی ہے نہ کوئی قابل ذکر کام کرسکتی ہے،
اردو زبان میں پوری پاکستانی قوم کی ثقافتی روح موجود ہے، کیونکہ یہ پاکستان کے تمام شہروں،دھاتوں میں وسیع پیمانے پر بولی، سمجھی جاتی ہے،تاہمیہ ایک کھلا راز ہے کہ اردو کے نفاذ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری افسر شاہی ہے، اگر وزیراعظم عمران خان قومی زبان کے نفاذ کے سلسلے میں ڈٹ جائیں اوراس کا دفتری زبان کے طور پر نفاذ ممکن بنادیں تو یہ اُن کا ملک و عوام پر ایک احسان ہوگا۔