Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

عالمی سطح پر دین اسلام کے تفکرات کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت

کیا مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام کو پھیلایا تھا؟

ہمارا اسلام کتنا خوبصورت ہے

عالمی سطح پر دین اسلام کے تفکرات کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت

نقاش نائطی
۔ +966504960485

کیا عالمگیر فکری تحریک کے لئے مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی کتابیں پورے عالم کے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں؟ یا قرون اولی کے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، تابعین تبع تابعین کی زندگی کے حالات ہی عالم کی فکری تبدیلی کے لئے کافی ہیں؟ کچھ بھی ہو عالمی سطح پر نہ صرف ہم مسلمانوں میں بلکہ دیگر ادیان کے پڑھے لکھے یا غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں دین اسلام کے تفکرات کو عام کیا جانا ضروری ہے۔ اور اسکے لئے قرون اولی کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین تابعین، تبع تابعین کی زندگی کے حالات اسلامی عملی تفکر کے طور پیش کرنا ضروری ہے۔

اس کے لئے ہم مسلمانوں کے مختلف طبقات جماعت اسلامی کے کتب کو تفکراتی طور پیش کرسکتے ہیں تو تبلیغی جماعت کے لاکھوں کروڑوں افراد انکی دینی عملی چلت پھرت کو عملی دین کے طور پیش کرسکتے ہیں اور سلفی یا اہل حدیث مکتبہ فکر کے حضرات سلف و صالحین کی عملی زندگیوں کو آسان تحریروں میں مختلف زبانوں میں پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک بات جو ان دنوں ضروری ہے اپنے تفکرات کو صحیح ثابت کرنے میں ہم کسی بھی دوسرے مکتب فکر کے تفکرات کی نفی کرنے یا انہیں غلط ٹہرانے کی کوشش کرتے ہوئے ،اور ادیان کے ماننے والوں کے اذہان کو اسلام کے بارے میں متزلزل کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئیے
مثبت انداز میں ہر کوئی اپنے اپنے

طور اپنے اپنے مگتب فکر کی دعوت دے سکتا ہے لیکن کسی دوسرے مکتب فکر کی دعوت کی نکیر یا اس کے خلاف عملا کوئی کام نہ کرے ۔ ہاں البتہ ہم تمام مختلف مکتبہ فکر والے احباب اپنے اپنے طور، اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر ان میں کہاں کہاں ، کون کون سی خامیاں لغزشیں رہ گئیں ہیں اپنے آپ کو سلف و صالحین کی عملی زندگیوں میں جھانک کر اس سے تقابل کرتے ہوئے، نہ صرف دیکھ سکتے ہیں بلکہ اپنے مکتب فکر میں ہائی جانے والی کمیوں خامیوں کو دور کرتے ہوئے،اپنے تفکرات کو ایک بہترین دینی تفکر کے طور عملا دنیا والوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔

سب سے اہم نکتہ اپنے اپنے مکتب فکر کی بات کا دنیا والوں کے سامنے رکھتے وقت، اپنی دعوت شخصیت پرستی سے مبرا اپنے اپنے قائدین کی تحریک کے طور نہیں بلکہ سلف و صالحین کی عملی زندگی کے طور دنیا والوں کے سامنے پیش کریں اس سے دین اسلام کی دعوت کو عالم کے سامنے متاثر کن انداز رکھنے میں آسانی ہوگی۔ ایک بات کا خیال رہے موجودہ جدت پسند دنیا میں چار کلاس پڑھے یا چار کتابیں پڑھے لوگوں میں بھی تجسس اور

حق جاننے کی تڑپ پائی جاتی ہے۔ وہ خوبیوں کے بجائے خامیوں کو جلدی پکڑنے والوں میں سے ہوتے ہیں اسلئے ان کے سامنے سلف و صالحین کے قرون اولی والی زندگیاں اور ان کی زندگیوں کے تناظر میں آج ہمارے اسلامی معاشرے میں اس کا عملی نمونہ دیکھنا لوگ چاہتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اس بات کامعترف ہے کہ معاشرتی زندگی کے معاملات میں ہم مسلمان، مجموعی طور پر اغیار سے کتنے پیچھے لاعمل زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم دعوت دین کے اعلی معیار کو دنیا والوں کے سامنے رکھنے میں کامیاب پائے جاتے ہیں لیکن عملی اسلامی معاشرتی زندگی کے اوصول و ضوابط، عملا پیش کرنے میں ناکام پائے جاتے ہیں۔ صد فی صد مکمل نظریہ ہی

عالم کے اور ادیان کے لوگوں کو دین اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے اور اس کے لئے قرون اولی کے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین تابعین اور تبع تابعین کی صد فی صد عملی اسلامی زندگی ہی انکے لئے نمونہ بن سکتی ہے۔آج بھی ہم مسلمان ہم میں موجود تمام تر شرک و بدعات و خرافات سے پاک ، وہ قرون اولی والے مکمل نظام حیات اپنی زندگیوں میں لانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یقین ماننے یہ صحیح دین کی متلاشی پیاسی دنیا ہمارے اخلاق حمیدہ والی عملی زندگی کو دیکھتے پرکھتے ہوئے ہی، دین اسلام کی طرف دوڑتی چلی آئیگی۔ ویسٹرن ممالک کے گورے عالمی سطح پر حرب و جنگ کی تباہ کاریوں اور انسانیت پر ہوتے مظالم سے

اکتائے ہوئے،اور آزادی کے بہانے اپنے بکھری معاشرتی زندگی سے تنگ آئے، شانتی انتی کی تلاش میں دین اسلام کی طرف دیکھ رہے ہیں تو وہیں پر حضرت نوح علیہ السلام کے امتی حضرت نوح کو ایشور کا دوؤد یا پیغمبر منو مانتے ہوئے ان کے پاس موجود، زمانے کی گرداب میں ایک حد تک خلط ملط ہوئے دیں آسمانی، صحف اولی مختلف ویدوں کو اب بھی انکے پاس موجود آسمانی ہدایات مانتے ہوئے، تغیر پذیر ان تک پہنچے پوجا پاٹ والے دین ہی کو دین آسمانی تصور کرتے ہوئے، پوری سختی سے اپنے دین پر عمل پیرا ھندو قوم،اس کورونا وبا دوسرے

دور کی تباہ کاری کے بعد، انکے اپنوں کے مردہ اجسام کی ہوئی، بے حرمتی، گدھوں کوؤں اور کتوں کے انہیں بھنبوڑ کھائے جانے سے نالاں، صحیح آسمانی دین کی تلاش میں پیاسے بیٹھے ہیں۔کیا ہم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری نہیں کہ ان کے ہاس موجود مختلف ویدوں کے اشلوکوں کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھ، گھس گھس کر ان میں سے قرآنی تعلیمات سے ملتے جلتے انیک اشلوکوں کو، قرآن سے تقابل کے ساتھ انکے سامنے رکھتے ہوئے، ان کے درمیان یہ ثابت

کرنے کی کوشش کریں کہ ان کے رشی منی منو، ہمارے اسلامی عقیدے مطابق ہمارے محترم نبی حضرت نوح علیہ السلام ہی ہیں اور آپ ہی کی دینی آسمانی کتب میں پیشین گوئی کئے مطابق حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم، اسی حضرت نوح والے دین کی تجدید نو کے ساتھ اللہ کی طرف سے تا قیامت کی انسانیت کے لئے بھیجے گئے ہیں آئیں اور آپ اپنی آسمانی مختلف وید منواسمرتی میں بتائے گئے آپ کے اور ہمارے ایشور کے پیغام کو گذشتہ 1442 سال سے بغیر ایک زیر زبر تبدیل ہوئے ہمارے پاس موجود آسمانی کتاب قرآن مجید سے تقابل کر دیکھئں اور ان میں مشترک پائے جانے والے آیشور اللہ کے احکامات مطابق ہی اپنی زندگیاں سنوارتے ہوئے،بعد الموت نرگ جہنم سے آمان پانے والے بنیں اور سورگ جنت کے حقدار پائے جائیں۔ واللہ الموافق بالتوفئق الا باللہ

Exit mobile version