عوام دوست بجٹ پر بھی احتجاج !
بجٹ کے حوالے سے عوام شدت سے منتظر تھے کہ اس بار حکومت عوام دوست بجٹ لانے مین کا میاب ہو جائے گی ،عوام کا انتظار ختم ہوا ،مالی سال 2021-22 کا 8487 ارب روپے کا وفاقی بجٹ اپوزیشن کے شور شرابے میں پیش کر دیا گیا، جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص رقم کو 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے کر دیا گیا ہے جو جہاں اس امر کا ثبوت ہے کہ حکومت مالی مشکلات کے باوجود ترقیاتی منصوبوں کو اہمیت دیتی ہے‘
وہاں ترقیاتی کاموں کے ذریعے عوام کے کچھ مسائل حل ہونے کے امکانات بھی بڑھے ہیں‘ تاہم ضرورت اس امر کو یقینی بنانے کی ہے کہ مختص کی گئی رقوم ترقیاتی کاموں پر ہی خرچ بھی کی جائیں،کیو نکہ عام تاثر ہے کہ فنڈز موجود ہونے کے باوجود ترقیاتی کام نہیں کرائے جا سکے،حکومت عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے،اس کا ثبوت بھی لوگوں کو تبھی مل سکے گا کہ جب ان کے مسائل حل ہوں گے اور ان کے لیے واقعی کچھ آسانیاں پیدا ہوں گی۔
اس میں شک نہیں کہ حکومت عوام کے مسائل کے تدارک اور عوام کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے کوشاں ہے ، وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی قومی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور ملک کے غریب طبقات کو بجٹ میں ریلیف دینے کا چیلنج قبول کرکے ہی وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تھا،اگرچہ قو اسمبلی میں پیش کیا گیا قومی بجٹ ساڑھے تین ارب روپے خسارے کا بجٹ ہے ،جبکہ کرونا وائرس کے منفی اثرات سے ابھی تک قومی معیشت کو چھٹکارا حاصل نہیں ہو سکا
،ایسے حالات میں عوام کو ریلیف دینے والے بجٹ کی تیاری حکومت کیلئے انتہائی مشکل مرحلہ تھا ،تاہم بجٹ میں پیش کردہ سہولتوں و مراعات اور ترقیاتی منصوبوں کے اعدادوشمار کی بنیاد پر حکومت بجٹ میں عام آدمی پر ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ نہ ڈالنے کے معاملہ میں سرخرو ہوتی نظر آرہی ہے ،وزیراعظم عمران خان کے بقول ملک معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے، جبکہ سرمایہ کاروں کیلئے آسانیاں پیدا کی جارہی ہیں، اس سے ملک میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا
تو لامحالہ ملازمتوں کے بھی نئے مواقع پیدا ہونگے،جس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کے غریب طبقات کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کا بہت زیادہ سامنا ہے، پی ٹی آئی کے اقتدار کے تین سالوں کے دوران عوام کے روٹی روزگار کے مسائل کم ہونے کے بجائے بتدریج بڑھے ہی ہیں ، اس لئے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے دو ہی راستے تھے ، ایک یہ کہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم نرخوں اور یوٹیلٹی بلوں میں مزید اضافہ نہ ہونے دیا جائے اور دوسرے یہ کہ
تنخواہ دار طبقات‘ بزرگ پنشنروں اور مزدور طبقات کی تنخواہوں‘ پنشن اور اجرت میں معقول اضافہ کیا جائے۔ تاہم بجٹ میں اس حوالے سے پیش کئے گئے اعداد و شمار زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہیں، البتہ وفاقی وزیر خزانہ نے عوام پر معاشی بوجھ کا باعث بننے والی آئی ایم ایف کی ناروا شرائط قبول نہ کرنے‘ سالانہ گروتھ ریٹ کے مزید بہتر ہونے‘ قومی معیشت کے مستحکم ہونے اور ملک میں چینی سرمایہ کاری سے 80 لاکھ سے زائد ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہونے کی جو دل خوش کن تصویر پیش کی ہے‘ اگر اسے عملی قالب میں ڈھال لیا گیا تو اپنے روزمرہ کے مسائل اور بے روزگاری سے عاجز آئے عوام کو فی الواقع ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا۔
حکومت نیک نیتی سے عوام دوست بجٹ لائی ہے ،تاہم حکومت کی نیک نیتی عوام پر اسی وقت آشکار ہو گی کہ جب ترقیاتی منصوبوںکے مندرجہ بالا روڈ میپ پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے گا،اپوزیشن عوام
دوست بجٹ مانے سے انکاری ہے ،اپوزیشن بجٹ تقریر کے دوران بھی احتجاج کرتے رہے، میاں شہباز شریف نے بجٹ کو اعدادو شمار کا گورک دھندا قرار دے کر مسترد کردیا ہے ،جبکہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ بجٹ عوام دشمن ہے ،یہ بجٹ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے،قائد حزبِ اختلاف محمد شہبازشریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جتنا مرضی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ بجٹ ایسے ہی منظور نہیں ہونے دیا جائے گا
،لیکن ایوان میں ہونے والی کارروائی سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہے، اپوزیشن کے دانت دکھانے اور کھانے کے مختلف ہیں ،یہ بجٹ بھی بلوں (مسودات قانون) کی طرح منظور ہو جائے گااور عوام اپوزیشن کے بدلتے رویئے پر حیرانگی سے منہ تکتے رہ جائیں گے ۔
حکومت کو عوام دوست بجٹ پر ا پوزیشن کے احتجاج سے لے کر بجٹ کی منظوری تک کی کوئی فکر لا حق نہیں ہے ، حکومت اپنا عوام دوست بجٹ آسانی سے منطور کروانے میں کامیاب ہو جائے گی ،تاہم حکومت کا تیسرا بجٹ عوام دوست بجٹ کے قالب میں ڈھلے گا توہی حکمران جماعت کیلئے آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جانا آسان ہو گا۔ حکومت جتنا مرضی اپوزیشن کو نطر انداز کرے ،مگر اسے اپنے باقی ماندہ دو سال میں بہرصورت عوام کو مطمئن کرنا ہے،
تاکہ الیکشن کے موقع پر اپوزیشن کیلئے عوام کے حکومت مخالف جذبات اپنے حق میں کیش کرانے کا موقع پیدا نہ ہوسکے، اس کیلئے حکومت کو ایسی اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں سے بہرصورت رجوع کرنا ہوگا کہ جن سے عوام پر اقتصادی بوجھ میں مزیدکمی آسکے ،عوام کو محض دس فیصد تنخواہوں میں اضافے سے زیادہ دیر تک بہلایا نہیں جاسکتا،عوام بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ اگر قومی معیشت مستحکم ہو رہی ہے تو اسکے ثمرات بھی ان تک ضرورپہنچنے چاہئیں،محض زبانی جمع خرچ سے اب عوام کو مطمئن کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔