چائیلڈ لیبر کے خاتمے کا دن 176

جنسی درندگی اور مجوزہ حکومتی بل

جنسی درندگی اور مجوزہ حکومتی بل

تحریر:خلیل احمد تھند
ایک اطلاع کے مطابق پی ٹی آئی حکومت اسمبلی میں ایک بل پیش کررہی ہے یا کردیا گیا ہے جس کے مطابق جنسی زیادتی کا مجرم اگر پہلی سزا مکمل کرنے کے بعد دوبارہ اس جرم کا ارتکاب کرے گا تو اسے سزا کے طور پر انجیکشن لگا کر نامرد بنا دیا جائے گا تاکہ نا رہے بانس نابجے بانسری۔جذباتی منچلوں سے معذرت کرتے ہوئے خواہش ہے

کہ مبینہ بل جس زرخیز دماغ کی اختراع ہے اسے اکیس کی بجائے بائیس توپوں کی سلامی اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار پر نوبل انعام سے نوازے جانے کی سفارش کی جائےایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معزز ایوانوں میں جو لوگ براجمان ہیں وہ کسی امر کے تمام پہلووں پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے یا پھر اسکی صلاحیت ہی نہیں رکھتے
انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ عبداللہ منصور سوال اٹھاتے ہیں کہ مجوزہ بل میں سفارش کی گئی سزا پر عمل درآمد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی مسائل کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے کیونکہ مجوزہ سزا پانے والے مجرم کو زندگی کے ایک ضروری لازمے سے محرومی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیا جائے گا تو بظاہر وہ اس جرم کی تکرار کرنے کے قابل نہیں رہے گا لیکن اپنے احساس محرومی و شرمندگی کی بنیاد پر وہ کئی نفسیاتی عوارض کا شکار ہو کر دیگر کئی

جرائم میں ملوث ہو جائے گاعین ممکن ہے کہ وہ اپنے احساس محرومی کی بنیاد پر خواتین کے وجود سے نفرت کرنے لگے اور انکے قتل میں ملوث ہوجائے یا انتقام کے پیش نظر انہیں مختلف تکالیف دینا شروع کر دے کیونکہ احساس محرومی کے ذہنی مریض سے کسی بھی قبیح جرم کی توقع رکھی جا سکتی ہے
ایسے فرد کو معاشرہ ایک مستند ناسور سمجھنے کی بناء پر کارآمد شہری کے طور پر کبھی قبول نہیں کرے گا لہذا سزا پر عملدرآمد کے باوجود طعن تشنیع اور شرمندگی کے ماحول میں مثبت شخصیت پروان چڑھنے کی توقع نہیں کی جا سکتی
سوال یہ ہے کہ اس بل کی صورت میں حکومتی دانشور ہمارے معاشرے کو کسی مشکل سے نجات دلانا چاہتے ہیں یا انتہائی مسائل زدہ معاشرے کو مزید کئی مسائل کا شکار کرنا چاہتے ہیں؟اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جنسی درندگی کے روز بروز بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد ان کی روک تھام کے لئے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے اس ضمن میں ہمیں ایسے قوانین پر غور کرنا چاہئے جن پر عملدرآمد کے نتیجے میں جنسی جرائم کے ارتکاب پر قابو پایا جانا ممکن ہو سکے
جناب عبداللہ منصور جنسی درندگی میں ملوث افراد کے لئے مجوزہ حکومتی سزا کے برعکس موت کی سزا تجویز کرتے ہیں تاکہ مستقبل میں مسائل کا باعث بننے والے ناسور سے معاشرے کو پاک کیا جاسکے
یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ مسلم اکثریت پر مبنی معاشرہ ہے ماضی کے ایک سروے کےمطابق نواسی فیصد عوام مذہبی جماعتوں کو انتخابات میں رد کرنے کے باوجود اسلامی سزاوں کے نفاذ کے حق میں ہیں لہذا اس عوامی خواہش کے پیش نظر جنسی درندگی میں ملوث افراد پر اسلام کی تعزیرات اور حدود کو جاری کرنے کے قوانین نئے سرے سے وضع کرنے کے لئے وسیع تر مشاورت ممکن بنائی جاسکتی ہے
دوسری طرف ہمارے معزز ایوانوں اور دانشوروں کو جنسی درندگی کے معاشرتی اسباب پر بھی غور کرنا چاہئے کیونکہ جب تک جنسی درندگی کے عوامل کو مہمیز دینے والے عوامل کا تدارک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ایسے جرائم کی روک تھام ممکن ہوسکے گی نا ہی سزائیں موثر یا منصفانہ ہو سکیں گی
یہ امر بھی انتہائی توجہ طلب ہے

کہ معاشرے میں موجود جنسی جبر کے خاتمے کے لئے تعلیمی نظام ، عمومی معاشرتی رویوں اور مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کا جامع منصوبہ تشکیل دینا از حد ضروری ہےکیونکہ معاشرے کی مجموعی ذہنیت تبدیل کئے بغیر محض سخت سزاوں کے نفاذ سے جنسی جبر کے مسائل پر قابو پانا ممکن نہیں ہوسکتا خواہ ان کا تعلق مذہب سے ہو یا انسانی تجربات کی بنیاد پر ہو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں