لڑکیوں کی شادی کے دوران طرح طرح کے مسائل پیش آنا
ماریہ اکبر مغل: پیپری
(سندھ مدرسۃالاسلام یونیورسٹی)
دور تو ڈیجیٹل ہوتا جارا ہے لکین اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ڈیمانڈز بھی عروج کو جاتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ مسئلوں میں دن با دن مبتلا ہوتا جا رہا ہے ہر روز کوئی نہ کوٹی مسئلا جنم لیتا ہے- اس ہی طرح سے ہمارے معاشرے میں ایک ایسے مسئلے نے طوفان پیدا کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے بہت سی مشکلاتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے- ہمارے معاشرہ میں لڑکیوں کو لے کر معاملہ بہت ہی سنگین ترین بنا دیا گیا ہے
آجکل نوجوان لڑکیوں کو اس طرح سے تنقید کا نشانا بنایا جاتا ہے کے جس کا اثر اکثر ڈپریشن,خودکشی,احساس کمتری اور غلط کاموں کی طرف رجو کرتا ہے- ہماری سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کے اب ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ بن گے ہیں جہاں پر جہالت اپنا مقام بنا چکی ہے-لڑکیوں کی شادی کے وقت جہیز کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے جہیز دینا اس قدر تک ضروری بن گیا کے کہ بغیر جہیز کے تو شادی ہی نہیں ہونی- جہیز دینا اب اس حد تک ناسور بن گیا ہے کے غریب ماں باپ اپنی بیٹی کے جہیز کو پورا کرنے میں اپنی سالوں کی محنت قربان کر دیتے لیکن پھر بھی مانگ کی ہوئی ڈیمانڈز پوری نہیں کر سکتے
جہیز کے مطالبات کو پورا کرنے میں نجانے کتنے گھر اجڑ چکے ہیں کتنی ہی بہنیں بیٹیاں گھر میں بیٹھی بال سفید کرلیتی ہیں اور اس ہی طرح کئی لڑکیوں کو جہیز نہ لے کر جانے کی صورت میں سسرال میں طعنے ملتے اور ذہنی طور پر تشہدد رہتا اور صرف اور صرف یہ جہیز ہی مسئلا نہیں ہے شادی کے وقت طرح طرح کی ڈیمانڈز کی جاتی ہے
جو کے مجبوری کی حالت میں کہ کہیں شادی نہ ٹوٹ جائے ماں باپ وہ ڈیمانڈز پوری کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں لکین کچھ لوگ غربت میں مبتلا ہوتے ہیں اور جو چاہ کر بھی ایسی ڈیمانڈز پوری نہیں کر سکتے اور صرف یہ جہیز ہی ایک مسئلا نہیں ہے یہاں پر ہر طرح سے خواتین اور خاص کرکے نوجوان لڑکیوں کو تنقید کا نشانا بنایا جاتا ہے انکی رنگت اور نقش کو لے کر انکو طعنے دئیے جاتے اکثر کر کے رشتے کے وقت کہ یہ بہت کالی ہے,
اس کے دانت بڑے ہیں, تو اسکا ناک پہھلا ہوا ہے, اس کا قد چھوٹا ہے, یہ تو بہت پتلی ہے, یہ تو زیادہ موٹی ہے, اتنی لمبی لڑکی اچھی نہیں لگتی فرمائشیں تو اسے کرتے جیسے تو کوئی فرمائشی پروگرام لگا ہوا ہو- لڑکی گوری ہو خوبصورت ہو نقش پیارے ہو قد ٹھیک ہو گھر کے کام اچھے سے کرتی ہو یعنی کے بلکل پرفیکٹ ہو- پھر بات آجاتی ہے تعلیم کی کہ کسی کو پڑہی لکھی چاہیے تو کسی کو ان پڑ, اتنی پڑہی لکھی ہوں, اتنی پڑہی لکھی نہ ہوں, یہ تو زیادہ پڑہی لکھی ہے بہت تیز ہوگی ہمیں کم تعلیم حاصل کی ہوئی چاہیے جو بس پڑ سگھے,
یہ تو ان پڑ ہے ہمیں زیادہ اور اچھی پڑہی لکھی لڑکی چاہیے ورنہ خاندان والے طعنے دیں گے ہماری واہ واہ نہیں ہوگی خاندان میں- عجیب سلسلا ہے کہ کہیں پر تعلیم یافتہ لڑکی چائیے تو کسی کو کم تعلیم یافتہ- ہر طرف سے تنقید کی جاتی بغیر سوچے سمجھے ایسے الفاظ کہے دیتے جو دل میں اتر کر اس طرح سے چھنی کردیتے کے وہ لڑکیاں پھر احساس کمتری اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں-غریب ماں باپ کی بیٹیاں جہیز نہ دنے کی وجی سے گھر بیٹھی ہوتی تو کوئی جسمانی صورتحال کی وجہ سے اور صرف اس چھوٹی سوچ کی وجہ سے معاشرے کی
صورتحال دن با دن بگڑتی جارہی اور ایک مسئلا یہ بھی ہے کے ڈیوی پر ڈراموں, فلموں اور ایڈوٹائز میں خوبصورت لڑکیاں دکھائی جاتی میک اپ کی اجہ سے اس قدر بناوٹی صورت کا منظر دکھیا جاتا جس کی وجہ سے نوجوانوں کے دماغ خراب ہو ریے اور اس طرح کی لڑکیاں احساس کمتری کا شکار بن رہی- یہ مسئلا حل تب تک نہیں ہوگا جب تک لوگ اپنی سوچ بلند نا کر لیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دل اور سوچ بڑی کرنی پڑے گئی یہ بات سب کو سمجھ لینی چاہیے کے یہاں کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہے ہر ایک میں کوئی نہ کوئی خامی موجود ہے
یہ رنگ کالے گورے سے کیا ہوتا ہے اصل خوبصورتی تو سیرت کی ہے رنگ کا کالا ہونا موٹا ہونا یا پتلا ہونا یہ سارے مسائل کیا حل نہیں ہو سکتے ارے جی سب کچھ ہو سکتا ہے اگر سوچ کو تھوڑا بڑا کر لیا جائے ہمارے بزرگوں کو چاہیے ہمارے معاشرے کے نوجوان لڑکی لڑکوں کو اس چیز کا احساس دلوائیا جائے اس طرح کی لڑکیوں کا ساتھ دیا جائے تاکے لڑکیاں احساس کمتری, ذہنی دباؤں, اور دوسرے بھی ڈھروں وجوہات سے بچ سگھے
اور لڑکوں کو بھی اس بات کا علم اور احساس دلوائیا جائے اور یہ بات بھی ساتھ ساتھ میں یاد دلوائی جائے کے آگے انکو بھی ایک بیٹی کے نعمت سے نوازہ جائے گا جوکے انکو بہت ہی پیاری ہونگی اس ہی طرح سے دوسروں کی بیٹیوں کا بھی خیال رکھا جائے- ہمارے بزرگوں کو اس چیز پر قدم اٹھانا چاہیے تاکے حالات میں بہتری آئے اور معاشرے کی یہ چھوٹی سوچ ختم ہوں-