چوک اعظم تحصیل بناؤ تحریک اوربانی مرزا رضوان بیگ 148

سید عطااللہ شاہ بخاری .ایک انمول ہیراتھے

سید عطااللہ شاہ بخاری .ایک انمول ہیراتھے

تحریر:شہزاد

تاریخ اسلام میں ہمیشہ وقت فرعونیت سے ٹکرانے والے آتے رہتے ہیں وقت یذیدت کو مٹانے کے ہمیشہ حسینیت والوں کااہم کردار رہاہے۔حق وباطل کی ازل سے کشمکش رہی ہے مگر تاریخ نے ہمیشہ حق پے ڈٹ جانے والوں کواپنے صفحات میں ہمیشہ نمایاں مقام دیا۔تاریخ کی ورق گردانی کرنے پے ہمیشہ
مسلم ہیروز کا نمایا کردار پایا گیا ،کبھی ایک بے بس لڑکی کی فریاد پے عرب سے نوعمر لڑکاسندھ آتا ہے۔ تو کبھی بقائے اسلام کی خاطر کشتیاں کو جلادیا جاتا ہے۔تو کبھی اسلام پے سر وار کردیا۔سر تن سے جدا ہوگئے
مگر حق کاالم تھامے رکھا ۔

مسلم ہیروز نے ہمیشہ خدا کے قانون کو سر آنکھوں پے رکھا اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیروقت کے سلطانوں سے حق کی بات اور منوائی ہے اس کے بدلے چاہیے اپنی جان کے نظرانے ہی کیوں پیش کرنے پڑے۔اس طرح انگریز سامراج کی برصیغرپر دھوکہ دہی سے کاروبار کی غرض سے آنے کے بعد یہاں کی عوام کو بے وقوف بنا کر اور غدداروں سے مل کر حکومت کرنے لگے اور یہاں کی عوام پے ظلمت کے پہاڑ توڑنے لگے اور اپنا غلام بنا لیا اور ان کا جینا محال کر دیا ہندئوں نے تو اپنی ہار تسلیم کر لی اور غلامانہ زندگی گزارنے کا ارادہ کر لیا تھا

مگر مسلم قوم کو یہ بات ناگوار گزر ی تھی ۔تاریخ اسلام میںمیں ہمیشہ اللہ تعالی نے ہمیشہ اپنے نیک بندے بھیجے جو حق سچ کی خاطر وقت کے سامراجوں سے ٹکرائے ،اس وقت بھی کسی ایسے عظیم انسان کی مسلمانوں کوضرورت تھی جو انگریز حکومت سے ٹکر لینے کی ہمت رکھتا ہواور مسلمانوں کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا بھی جانتا ہو ہندئوں کی مکاری کو بھی پہنچانتا ہو اور اس مشکل وقت میں مسلم قوم کی الجھی ڈور کو سنبھال کے

اور اسلام دشمن کو بھی دھول چٹا سکے۔تحریک دیوبندسے پرورش پانے والے فخر دیوبند ،خطیب الامت،بطل حریت،امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری ؒنے وقت کے فرعون سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھنے اور اس انگریز سامراج کی دھجیاں اڑانے کی ٹھان کر میدان میں آئے،حفیظ جالندھری نے شاہ صاحب کے بارے کہا ،برطانوی سیاست وثقافت کے خلاف ہم سب مسلمانوںجنجھوڑکر بیدار کرنے والے بے مثال خطیب اور مجاہدسید عطاء عطااللہ شاہ بخاری کی آواز
ہرآن میرے ایمان میں شامل ہے۔امیرشریعت اپنے دور کے سب سے بڑے خطیب تھے اور مسلم قوم کے بڑے طبقے میں بے حد مقبول اور ہر دل عزیز مسلمان رہنما تھے۔لیکن ان میں غرور اورتفاخر کا کوئی
کوئی جذبہ نہیں تھا۔امیر شریعت کی زندگی انتہائی سادہ اور درویشانہ تھی ۔امیع شریعت اپنے کارکنان سے
(مجلس احرار اسلام )سے بے حد محبت وشفقت سے پیش آتے تھے۔شاہ جی نے ہمیشہ اپنے رفقاء کوبلا تمیز امیر وغریب قومی زندگی میں نمایا کرنے اور آگے لانے کی ہمیشہ سعی کی اور ہر ممکن ان کی حوصلہ افزائی
شاہ صاحب کی انہیں

خوبیوں کی وجہ سے مجلس احرار اسلام نے نے سینکڑوں مقرر اور ہزاروں بے لوث،بے غرض اور جری کارکنان پیدا کیے۔شاہ جی نے انگریز حکومت کے خلاف اس وقت علم بغاوت بلندکیاجب پنجاب میںجاگیردار اور انگریز کے ٹوڈی حاکم تھے۔سرسکندرحیات پنجاب کا حاکم تھا۔پنجاب میں
ان کی مرضی کے خلاف کوئی بھی حرکت نہیں کر سکتا تھامگرشعلہ بیان خطیب کی مئومنانہ للکار نے سکندر حیات کے اقتدار کوللکار کو ہلا کر رکھ دیا۔شاہ جی نے پنجاب کے غریب عوام کے ذہنوں میں انگریز سامراج کے خلاف بغاوت کوٹ کوٹ بھردی۔شاہ جی نے انگریز حکومت جاگیرداروں اور ان کے حواریوں کے خلاف آواز بلند کی اور ان کو ہمیشہ للکارا ۔اسی سلسلہ میں امیرشریعت کو بار بار جیل جانا پڑا۔
سالہاسال تک قید وبند کی صوبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔مگران کے پائے استقلال میں لحظہ بھر کے لیے
بھی لغزش نہ آنے

پائی۔شاہ جی جب بھی جیل سے رہاہوتے تو اوع بھی زیادہ شدت سے انگریز حکومت کی مخالفت کرنے لگتے۔امیرشریعت نے سیاست میں مستوسط نچلے طبقے کو مسلمانوں کی قیادت سے بہرہ ور کیا۔شاہ جی کی قیادت نے ایثاراور بے لوثی کی مثالیں قائم کیں ۔امیرشریعت کا جلسوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو معلوم ہوتا ہے شام کو عشاء کی نماز کے بعد شروع ہونے والا خطاب صبح کی اذان ہونے پر اختتام پزیر ہوتے تھے، لوگوں کا سمندر ہوتا تھا۔کئی جلسوں میں پانچ لاکھ تک تعداد ہوتی تھی قیام پاکستان
سے قبل 26اپریل 1946ء کواردوپارک دہلی میںایک بڑے جلسہ کا اہتمام کیا گیا اس میں شاہ جی کا آخری خطاب تھا اس میں تلاوت قرآن سننے کے لیے پنڈت جواہرلال نہرو آئے تھے تلاوت کے ختم ہونے پر کہا ”بھائیو! میں توبخاری صاحب سے قرآن سننے کے لیے حاضر ہواتھا۔اب میں معذرت کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں ۔برطانوی مشن کی آمدکے باعث مصروفیات بہت زیادہ ہے”امیر شریعت کی قیام پاکستان کے بعد آنے والے مسائل اور پیش گوئیاں وقت کے ساتھ ساتھ سچ ثابت ہوئیں۔امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کاایک ایک لفظ حقیقت کی عیاں ہے ۔قیام پاکستان کے بعد یکم اکتوبر
روزنامہ ”آزاد”لاہور میں صفحہ اول پر ”پاکستان ہم نے ہزاروں بہنوں ،بیٹیوں اورلاکھوں کڑیل نوجوانوں کا مچلتا ہوا خون پیش کر کے حاصل کیا ہے۔ساڑھے تیرہ سوسال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو،کوئی سودا بھی اتنا مہنگا نہیں چکایاگیالیکن اب اس کی حفاظت اس طرح کرنی ہوگی،جس طرح پیش بہا قیمتی قربانیاںدے کر حاصل کیا ہے۔میں آپ کے مقابلے میں اگرچہ بوڑھا ہوچکا ہوںلیکن باطل کو سرنگوں
کرنے کے لیے میری رگوں میں اب بھی جوان خون اب بھی دوڑ رہا ہے”قیام پاکستان کے وقت جو فسادات شروع ہوئے اس وقت امر تسر میں جلائو گھیرائو میں گھر بار جل گیا مگر اتنا افسوس نہ تھا مگر اس قوت
ان کی لائبریری ٖضائع ہوگئی اس کا بے حد افسوس کرتے رہے مرتے وقت تک ۔قیام پاکستان کے بعد
شاہ جی پاکستان میں سکونت پذیر ہونے کا فیصلہ کیا تواپنے بچوں سمیت انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں
لاہور پہنچے اور دفتر احرار میں چند ماہ رہائش پزیر رہے

نوبزادہ نصراللہ خان کی درخواست پرخان گڑھ تشریف لائے،پھر کچھ عرصہ بعد سیلاب آنے کے بعد دوستوں کے اصرار کرنے پر ملتان تشریف لے گئے اور کرائے کے مکان میں زندگی گزار دی۔امیر شریعت سیدعطااللہ ء شاہ بخاری،ایک عہد ،ایک تاریخ بلکہ عہد ساز اورتاریخ ساز شخصیت تھے آزادی کے اس مشکل وقت میں قوم کی صیحح معنوں میں رہنمائی کی۔اور قیام پاکستان تک کے سفر میں اپناکردار نمایا رکھا ایک محب انسانیت کردار ادا کیا اور صیحح معنوں میں سعادات گھرانے ہونے کا ثبوت دیا مسلم قوم کی رہنمائی کرنے کوئی لاپروائی نہیں کی بلکہ ایک انمول ہیرا ثابت ہوئے اور تاریخ نے ثابت کیا کہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ایک بے مثال شخصیت تھے ،شاہ جی ہمیشہ تاریخ کے صفحات میں نمایا نظر آئیں گے اور ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے آمین.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں