عبرت کی بات تھی،جسے تماشہ بنادیا 161

عبرت کی بات تھی،جسے تماشہ بنادیا

عبرت کی بات تھی،جسے تماشہ بنادیا

کالم ٹئٹل/سحرِقلم
تحریر/عبدالوحیدقاسمی
مفتی عزیزالرحمٰن،جو اپنی زندگی کیکم و بیش 70موسم گزار چکے،صبح جلدی اٹھنا،نمازِ فجر کی ادائیگی کیمتصل بعد اسباق پڑھانے کیلئے تیار نظر آنا،ہمیشہ مسکراتا چہرہ،اپنائیت بھری آواز،طلباء کے حق میں سب سے زیادہ رحیم اور شفیق،درویشانہ سادہ زندگی،
دینی مسائل میں علمائ،طلباء اور عوام کی برسوں سے رہنمائی کرنے والے،تیسیرالمنطق سے لیکر صحیح بخاری شریف پڑھانے والے،یوں کہ لیں ولیِ کامل بھی اور ایک محبوب شخصیت بھی۔پھر کیا ہوا میرے رب کی بے نیازی،میرے رب کی مصلحتیں،
میرا رب ہی جانتا ہے۔
وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔وہ مختارِ کُل ہے۔وہ مالک ہے۔وہ خالق ہے۔جو چاہتا ہے کرتا ہے۔یہاں بھی اس کی بے نیازی کا کوڑا برسا۔جزا اور سزا وہی جانتا ہے ہوسکتا ہے اس پر سزا ہو۔یہ بھی ہوسکتا ہے توبہ اس قدر سچے دل سے کرلی ہو کہ گناہ معاف ہوگیا ہو۔یہ وہ معاملہ ہے جسے صرف اللہ ہی جانتے ہیں۔لیکن عزت کے نقشوں میں ذلت کا وجود،پھر یہ ذلت کمرے سے نکل کر فیس بک یوٹیوب واٹس اپ اورٹیلیویزن کے تقریبًا ہرچینل پر،پھر یہ تُھو تُھکار صرف اپنے ملک میں نہیں بلکہ دنیا بھرمیں ہوتی ہے۔خوف خدا کی کیفیت جسم کے ذرے ذرے پر حاوی ہے

۔رُواں رُواں زُبانِ حال سے یہی کہ رہا ہے۔اللہ بے نیاز ہے،اللہ بے نیاز ہے۔مفتی صاحب کے ساتھ جزا یا سزا کا معاملہ،یہ اللہ تعالی کا اختیار ہے۔وہ جو چاہے کرے۔لیکن ہم تیسرے فریق ہیں۔ہمارا رد عمل کیا ہے۔کسی نے صرف مفتی عزیز ہی کہنے پر اکتفا کیا۔کسی نے نام نہاد مفتی کہا۔کسی نے کہا مفتی بھی نہ کہو۔کسی نے اس واقعہ کی آڑ میں اسلام کو نشانہ بنایا

۔کسی نیمدارس کی پگڑی اچھالی۔کسی نے گالی دی۔کسی نیپوشیدہ گناہ کو ننگا کرنے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اسی پر لگا دیا۔کسی نے خوب ہنسی کی۔کسی نے خوب مذاق اڑایا۔کسی نے مسلک پر سیاہی اچھالی۔کسی نے سارے مدارس کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔یوں کہ لیں کہ بجائے ستر پوشی کے عیب اچھال کرخوب لطف اندوز ہوے۔

یہ بات ظاہر ہے کہ جو بھی ہوا وہ غلط بھی ہے وہ قابلِ مذمت بھی۔لیکن میں اختلاف صرف اس بات پر کرتا ہوں کہ ریپ روزانہ ہوتے ہیں۔کوئی دن خالی نہیں جاتا کہ جس دن کسی کی عزتیں پامال نہ ہوں۔لیکن کسی واقعے کو اس قدر اچھالا نہیں جاتا۔جس قدر اس واقعے کو اچھا گیا اور ہائی لائیٹ کیا گیامیڈیا نے مغرب نوازی کی روایت قائم کی اور ہم نے میڈیا نوازی کی۔اگر شریعت کو دیکھیں،شریعت توعیب چھپانے کا کہتی ہے۔چاہئے یہ تھا کہ اس واقعے سے سب عبرت حاصل کرتے

۔کوئی خطیب ہو،کوئی مولوی ہو،کوئی مدرس ہو،کوئی عوام میں سے ہو یا کوئی خواص میں سے ہو۔یہ واقعہ سب کیلئیعبرت ہے۔شیطان طاق لگائے بیٹھا ہے۔عبادات بجا لانا کوئی مشکل بات نہیں،عبادات کو بچانا یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ہم میں سے کتنے ہیں جو آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہیں۔حدیث میں نظر کو شیطان کا جال کہا گیا ہے۔کتنیہیں جوکانوں کے زنامیں مبتلاہیں۔زبان کو دیکھ لیں،جھوٹ اورغیبت سے کتنے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔گناہگار سارے ہیں

صرف فرق یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی ستاری کا پردہ ہمارے گناہوں پہ ڈالا ہوا ہے۔مولانا اسلم شیخوپوری صاحب سے ایک دفعہ اپنے کانوں سے میں نے یہ ملفوظ سنا کہ یہ اللہ تعالی کی ستّاری اور مہربانی ہے کہ اس نے ہمارے گناہ ظاہر نہیں کیے۔وگرنہ اگر ہمارے گناہ ظاہر کردییجائیں تو کوئی بھائی اپنی بہن کو منہ نہ دکھا سکے۔کوئی اولاد اپنے والدین کو منہ نہ دکھا سکے۔عزیز،اقارب،دوست احباب کو منہ نہ دکھا سکیں۔حدیث کی رو سے معلوم ہوتا ہے

کہ جو دنیا میں کسی کیعیب چھپائیگا اللہ تعالی آخرت میں اس کے عیب چھپائیں گے۔مفتی صاحب سے غلطی ہوئی سو ہوئی لیکن ہم فری میں اپنی آخرت برباد کرنے بیٹھ گئے۔اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی عبادات پر بھروسہ کر کے بیٹھے نہ رہیں۔اللہ سے رحمت مانگیں۔اسلام والی زندگی اور ایمان والی موت مانگیں۔اعمال کی قبولیت کی دعاکرتیرہیں۔کوئی کسی ادارے کا مدیر ہے۔کوئی مہتمم ہے،کوئی مدرس ہے۔سب کو چاہئے زندگی کا کیسا ہی موڑ آجائے

۔شیطان کسی انداز کسی روپ میں بھی حملہ آورہو۔ ثابت قدمی کبھی نہ چھوڑیں۔کبھی گناہ کیقریب بھی نہ جائیں۔اللہ سیجتنا تعلق مضبوط ہوگاہماری زندگی میں اتنی ہی بہار آئے گی۔بہرحال خلاصہ کلام یہ ہے کہ بجائے اس واقعہ کو کھیل تماشہ بنانے کے،بجائے اس پر بے فائدہ تبصرے کرنے کے اور لطف اندوز ہونے کے اس کو ہم اپنے لیے عبرت سمجھیں۔ہم کو گناہ سے اتنی نفرت ہوجائے جتنی ہم زہرِ قاتل سے کرتے ہیں۔اور ہماری آخرت تباہ ہونے سے بچ جائے۔

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے۔
یہ عبرت کی جاہیتماشہ نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں