صحت انسانی اور شافی السقم رب دو جہاں 266

2022 یوپی چناؤ ریس میں آکلیش کی سائکل کیا بازی مار لیجائے گی؟

2022 یوپی چناؤ ریس میں آکلیش کی سائکل کیا بازی مار لیجائے گی؟

نقاش نائطی
۔ +966594960485

https://fb.watch/6oAPFKbsqt/

2017 یوپی انتخاب میں ای وی ایم جن مہاراج کے جادوئی اثر کو پس پشت بھی رکھ دیا جائے تو 2014 عام انتخاب بعد مودی جی کا جادو جو سر چڑھ کر بول رہا تھا تو ایک طرف نوٹ بندی کے اثرات سے پوری طرح یوپی کی عوام جہاں آگاہ ہو نہیں پائے تھے تو وہیں پر 8 ستمبر 2016 کچھ گھنٹوں کی فرصت سے جو نوٹ بندی کی مار دیش کی جنتا کو دی گئی تھی اس سے پہلے سے باخبر سنگھی حکمرانوں نے اور ان کے مددگار برہمن پونجی پتیوں نے تو،

اپنا کالا دھن کوآپریٹیو بنکوں کی مدد سے سفید کرنے میں ایک حد تک کامیابی حاصل کر لی تھی اور مودی جی کے اس “چکھہ اسٹروک” نوٹ بندی سے، اپوزیشن پارٹیاں کالے دھن کے لٹنے سے، وقتی طور دھن مکت ہوگئی تھیں۔ تو دوسری طرف جس طرح سے دہلی گجرات کے بازاروں میں کالے دھن کو چمچاتے 2ہزار کے سفید دھن گلابی نوٹوں میں تبدیل کرنے،

بیس سے پچیس ٹکا جو منافع لیا جاتا تھا،اس سےحاصل سنگھی حکمرانوں کے پاس جمع ہزاروں کروڑ کے کالے دھن ہی کا فائیدہ اٹھاتے ہوئے، مودی جی کے جادوئی چہرے کو کالے دھن پر بھناتے ہوئے، سنگھی یوگی حکومت 300+ سیٹوں سے یوپی میں حکومت قائم کرتے ہوئے، بھارت کو معشیتی طور تباہ کرتے اپنے نوٹ بندی فیصلے کو صحیح ثابت کرنے میں بھی ایک حد تک سنگھی کامیاب رہے تھے۔

کسی بھی بڑے عہدے کا حصول ہو یا عوامی مقبولیت کے اونچے گراف پر پہنچنے کے مواقع، ان حاصل شدہ اہداف کو جاری و باقی رکھنا جوئے شیر لانے سےکم نہیں ہوتا۔ بھارت کے عوام نے ان سنگھی مودی یوگی حکمرانوں کو جو حسین موقع خدمت کا دیا تھا اگر ان سنگھی حکمرانوں نے کچھ تو عوامی فلاح کے کام کیئے ہوتے تو آج اس اس یوپی انتخاب میں بھی 300+ سیٹیں جیتنا کوئی بڑی بات نہ ہوتی، لیکن ان سنگھی حکمران مودی یوگی کے پاس رام مندر،کشمیر کے بہانے پڑوسی پاکستان دشمنی یا دیش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 25 سے 30 کروڑ

مسلمانوں کے خلاف منافرتی زہرپھیلاتے ایشوز کے علاوہ انہیں عوامی فلاح بہبود کے لئے کچھ ٹھوس کام کرنا آتا ہی نہیں۔ ان مفروضہ مسلم منافرت ایجنڈے کے بل پر ایک دو مرتبہ تو عوام کو بیوقوف بنایا جاسکتا ہے بارباڈوس عوام کو بے وقوف بنایا نہیں جاسکتاہے۔ایسے میں اس کورونا قہر کہرام فیس 2 دوران ان سنگھی حکمرانوں کی کلکتہ کیرالہ ٹمل ناڈو فتح کرنے کے چکرمیں، اس کویڈ کال میں بھی، مختلف دیہاتوں سے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں دیہاتیوں کو شہروں میں لاتے ہوئے، اور کمبھ میلوں میں کروڑوں دیش کے ھندو بھائیوں بہنوں

کو آنے دیتے ہوئے، کورونا ساتھ واپس لیجا،پورے بھارت میں کوروناپھیلانےہوئے، امریکی رپورٹ مطابق 50 لاکھ بھارتیوں کو کویڈ دیوی مان پر قربان کرتے ہوئے، بعد موت انکے پارتو شریر تک کو انتم سنسکار میں مدد نہ دے ،انہیں اپنوں کے پارتو شریر کو کنگا میں بہانے مجبور کرتے ہوئے، انکے اپنوں کے پارتو شریر کو، گدھ کوئے کتے نوچ کھانے مناظر سائبر میڈیا پر دیکھنے کے بعد بھی، کیا یوپی کے عوام ان سنگھیوں کو دوبارہ

اقتدار واپس سونپیں گے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ نہیں بالکل نہیں؟ انہوں نے تو ان سنگھی مودی یوگی حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا من بنالیا ہے۔ گویا گنگا میں بہتے ھندو بھائیوں کی ہزاروں لاشوں نے، پانی میں کھلنے والے کنول کو اپنے ساتھ بہالے جانے میں ایک حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے

اب یوپی کی اگلی حکومت کس کی بنے گی یہ ایک اہم سوال ہے، مایاوتی کا ہاتھی تو اس دس سال کے طویل عرصے میں بغیر کام کاچ چربی چڑھےاس انتخابی ریس میں جیتنے کے آثار کم دکھائی دیتے ہیں۔ پانچ سال قبل اکلیش نے راہول سے ہاتھ ملا یوپی میں اپنے کام سے ایک حد تک عوام کا دل جیت لیا تھا لیکن مودی جی کی شہرت کے جادوئی چمتکار کو سنگھی کالے دھن کی آندھی کےسامنے سائکل کی سواری ٹک نہ پانے کی وجہ سے، وہ اقتدار سے

گویا بے دخل ہوگئے تھے۔ اگر اب بھی اندرون خانہ ہی وہ 2024 مرکزی سرکار کانگریس کے لئے چھوڑ دینے کے اپنے وعدے سے یوپی کو اپنے لئے کانگریس سے مانگ بھی لیتے ہیں تو ان سنگھی حکمرانوں کو اب لکھنو، بعد میں دہلی کی سپتھا سے دور رکھنا آسان ہوسکتا ہے۔ کانگریس پرینکا گاندھی کے سہارے اکلوتے اپنے بل بوتے پر یوہی کو جیتنے کی کوشش کرتے، سنگھئوں کے لئے واپس لکھنو اقتدار کی امید دلوانے سے اچھا، اپنے مضبوط ہاتھ سے سائیکل کی سواری کو لکھنو شان سے پہچانے ہی میں عقل مندی لگتی ہے۔

اب کی بار سنگھی حکمران اپسی جھگڑوں کے سبب ہی نہیں یوپی میدان سیاست ہار رہے ہیں،بلکہ اپنے دور اقتدار کا غلط استعمال کر عوام کو دی جانے والی تکلیفوں کے سبب ہی یوپی اقتدار سنگھ کھو رہی ہے۔ ایک بات ان تمام سیاست دانوں کو یاد رہے کہ دہلی کی سپتھا عموما لکھنو ہی سے ہوکر گزرتی ہے۔ اب کی بار حذب اختلاف لکھنو کے اقتدار سے سنگھیوں کو دور رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یقینا 2024 عام انتخاب بعد 138 کروڑ بھارت واسیوں کو سنگھ مکت اپنے دیرینہ خواب کو پورا ہوتے دیکھنے میں مدد ملیگی۔ انشاءاللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں