اساتذہ اپنا احترام کروائیں
رنگِ نوا
(نوید ملک)
نمازی جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد پہنچ چکے تھے۔مولانا صاحب کے خطاب کے دوران ایک پرچی آئی۔خبر نہیں کیا لکھا تھا مگر انھوں نے فرمایا:-”والدین کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔الزامات کی ساری گھڑیاں اولاد کے سر نہیں ہونی چاہییں”
والدین اور روحانی والدین کے حوالے سے سوشل میڈیا میں جو کچھ نشر ہو رہا ہے، بہت سی خامیاں موقع پر ہی دفن ہو جاتی ہیں۔موجودہ دور میں جہاں کئی شاگرد اخلاقی و روحانی گراوٹوں کا شکار ہیں وہاں بہت سے اساتذہ بھی اپنا وقار اپنے ہی اعمال کی وجہ سے کھو بیٹھے ہیں۔میں ان اساتذہ کی بات کر رہا ہوں جنھوں نییہ شعبہ صرف پیسہ کمانے کے لیے اختیار کیا۔میں ان کی بات کر رہا ہوں جن کا ظاہر تو اچھے استاد کی تفسیر بیان کرتا ہے مگر سینے میں ہوس کے شعلے پنپتے ہیں۔جب یہ شعلے بصارت کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتے ہیں تو بہن بیٹی کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔کئی اکیڈمیاں، اسکولز اور جامعات میں انسانی مجسمے اساتذہ کے روپ میں کئی نسلوں کے اخلاق و کردار کا قتل کرتے ہیں
۔ایک استاد، ایک شاگرد کی اچھی روحانی تربیت کر کے اچھا باپ یا بیٹی معاشرے کو دے سکتا ہے۔ایک باپ اور ایک بیٹی سے کئی نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔میں ان اساتذہ کی بات کر رہا ہوں جو طلبہ و طالبات کا ذہن چالیس فیصد نمبروں پر چپکا کر نہ اپنی ذمہ داریوں ایمانداری سے نبھاتے ہیں اور نہ ہی انھیں معاشرے کا کامیاب اور فعال رکن بنانے میں کوئی مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔میں ان اساتذہ کی بات کر رہا ہوں جو انسانوں کی جگہ ہمارے معاشرے کو
انسان گوندنے والی مشینیں دے رہے ہیں۔یہ مشینیں جس شعبے میں جاتی ہیں پیسہ کمانے کے لیے ہر لاچار و نادار کو تنور میں دھکیلتی ہیں۔میں ان اساتذہ کی بات کر رہاہوں جو اپنی ٹویشن بڑھانیکے لیے اسکولز میں اپناپیریڈ غیر ضروری باتوں میں ضائع کرتے ہیں اور اپنی ٹویشن اکیڈمی کی تعداد اچھا پڑھا کر بڑھاتے ہیں۔غریب کے بچے اسکول کی عمارت پر اپنی خواہشات رقم کر کے واپس آ جاتے ہیں۔میں ان اساتذہ کی بات کر رہا ہوں جنھیں طلبہ و طالبات کے چہروں پر اپنی اولاد کے چہرے نظر نہیں آتے۔ان کے سینوں میں جو جذبات اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے
جگمگاتے ہیں اپنے طلبہ و طالبات کے لیے روشن نہیں ہوتے۔میں ان اساتذہ کی بات کر رہا ہوں جنھوں نے اس پیشے کو آسان سمجھ کر اختیار کر رکھا ہے اور نسلِ نو کے مستقبل کو اپنی آسانیوں کے لیے قربان کر دیتے ہیں۔میں ان پروفیسرز کی بات کر رہا ہوں جن کا جامعات میں منفی رویہ نئے اذہان میں زہر گھول رہا ہے۔میں ان اساتذہ کی بات کر رہا ہوں سوشل میڈیا کی وجہ سے جن کی عادات شاگردوں سے زیادہ بگڑ چکی ہیں۔
میں ان معلمین اور معلمات کی بات کر رہا ہوں جو شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلامی تہذیب کا چہرہ مسخ کر رہے ہیں
اور دوسری طرف اسلامیات بھی پڑھاتے ہیں۔اسلامی علوم کی روشنی میں نہ عملی منصوبے بناتے ہیں نہ خود عمل کرتے ہیں۔اگر سائنس کی مضامین کے لیے تجرباہ گاہیں موجود ہیں تو دینی علوم کے لیے سب سے بڑی تجربہ گاہ ہمارا معاشرہ ہے۔بچوں کو ایسے منصوبے دیے جا سکتے ہیں جو گھر سے لے کر معاشرے تک مثبت رجحانات کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
میں ان اساتذہ کی بات کر رہا ہوں جن کے دلوں کو یہ احادیثِ مبارکہ بھی منور نہ کر سکی
”بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا”
شعبہ ء تدریس سے منسلک تمام احباب اپنے مقام کو پہچانیں۔سارے الزامات نسلِ نو پر نہیں دھرنے چاہیں، آئنے پر اپنے کردار کے عکس بھی دیکھنے چاہییں۔
آخر میں ایک غزل کے کچھ منتخب اشعار
ہیں منجمد قدم کوئی دیوار بھی نہیں
کتنے عجیب لوگ ہیں بے زار بھی نہیں
آسانیوں سے ہم کو بلندی نہیں ملی
یعنی کسی پہاڑ میں اک غار بھی نہیں
کیا کیا نہ بَو گیا مری خوشیاں نکھارنے
کہنے کو میرا باپ زمیندار بھی نہیں
تم کر رہے ہو بات نوید احتجاج کی
اب تو لبوں پہ نام کا اظہار بھی نہیں