’’بھکاریوں کی بڑھتی تعداد اور ریاست مدینہ‘‘ 206

’’کپتان کی توجہ کے طلبگار کسان‘‘

’’کپتان کی توجہ کے طلبگار کسان‘‘

تحریر : اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100
تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے جس طرح انسان کے زندہ رہنے کیلئے جسم میں سانس کا ہونا ضروری ہے، اسی طرح ملکی ترقی کیلئے معیشت کو مستحکم کرنا اور پہلے زراعت پھر صنعت و تجارت، ذرائع ابلاغ اور دیگر شعبہ جات کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا از حد ضروری ہے، ملک کی معیشت کا زیادہ تر دار و مدار زراعت پر ہے، سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 61 فیصد کے لگ بھگ حصہ زراعت کے شعبہ سے منسلک ہے،

اس واضح حقیقت کے باوجود ماضی اور حال کی حکومتوں نے زراعت کے شعبہ کی ترقی کیلئے کسی بھی طرح کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے، زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر نظر دوڑائی جائے تو جو نمایاں وجوہات سامنے آتی ہیں، ان میں سرفہرست ڈیزل، پٹرول، زرعی آلات، کھاد، بیج، زرعی ادویات اور زراعت میں استعمال ہونے والے دیگر لوازمات کا مہنگا ہونا ہے، جبکہ ملک بھر بالخصوص پنجاب کے محکمہ ریونیو کے کمپیوٹر سنٹرز میں کمپیوٹر کی

غلطیاں کسانوں کیلئے وبال جان اور محکمہ مال کے اہلکاروں کیلئے چاندی کمانے کا باعث بنی ہوئی ہیں، اکثر کمپیوٹر سنٹرز پر کسانوں کا کوئی کام بغیر سفارش یا چمک کے نہیں ہوتا، حالات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی اس بابت سنجیدہ پالیسی نہ ہونے کے باعث کمپیوٹر سنٹرز کے افسران اور عملہ کی اصلاح کرنا کسی کی بس کی بات نہیں نظر آ رہی؟ رہی سہی کسر کسانوں پر لگائے گئے ٹیکسوں کی بھرمار نے نکال دی ہے، اگر حالات یہی رہے تو زراعت جسے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے ترقی کرتی نظر نہیں آ رہی۔
زراعت کی ترقی میں دوسری سب سے بڑی رکاوٹ ایریگیشن کا ادارہ ہے، جو کسانوں کیلئے درد سر بنا ہوا ہے، راقم کی معلومات کے مطابق اس کی ایک مثال خوشاب کے گائوں موضع کوڑا جس کا نہری پانی ٹیل پر ہونے کی وجہ سے مشکلات کے شکار دیہاتیوں نے 12 سال قبل نہری پانی کے شارٹ روٹ کی تبدیلی کیلئے محکمہ ایریگیشن کو درخواست دی جس کا تا دم تحریر کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا، اس دورانیہ میں کچھ درخواست گزار اللہ کو پیارے ہو گئے

اور کچھ ایریگیشن دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک کر گھروں میں بیٹھ گئے، اب تک ہزاروں کاغذ اس فائل کے ساتھ لگ چکے ہیں اور شاید ہزاروں اور لگیں گے، یہ فائل ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک پہنچانے کیلئے دیہاتیوں نے ہزار جتن کئے اور جتنا بڑا بابو اتنے روپے دے کر 12 سالوں میں لاکھوں روپے خرچ کیے مگر فائل ابھی تک دفتر میں ہی گردش کر رہی ہے، اور اس پر اعتراضات در اعتراضات لگ رہے ہیں، یہ مسئلہ آنے والے 12سالوں میں بھی حل ہوتا

دکھائی نہیں دیتا، اسی طرح کی مثالیں پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی ہیں جہاں سالہا سال سے زمینوں کے پانی کے کیس محکمہ ایریگیشن میں التواء کا شکار ہیں اور کسان دفاتر کے چکر لگا لگاکر تنگ آ کر خوشاب کے گائوں کوڑا کے مکینوں کی طرح اس توقع پر کہ شاید کوئی فرشتہ حکمران آئے اور ان کا مسئلہ حل کر دے چپ سادھ کر بیٹھ گئے ہیں۔
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں چھوٹے کسان کو خوشحال رکھنے کیلئے باقاعدہ ادارے قائم ہیں جو کسانوں کو کھاد، بیج، زرعی ادویات، زرعی آلات کی فراہمی میں دی جانے والی سبسڈی کے نگرانی کرتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی حقیقی طور پر کسانوں تک پہنچے اور ان ممالک میں سبسڈی میں

خورد برد کرنے والوں کیلئے کڑی سے کڑی سزائیں ہیں، مگر معذرت کے ساتھ ہمارے ملک میں کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی کا 50 فیصد فائدہ بیورو کریسی اور باقی بچ جانے والی 50 فیصد میں سے 90 فیصد فائدہ جاگیر دار اور وڈیرے اٹھاتے ہیں اور اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ریلیف چھوٹے کسانوں کو ملتا ہے، جس کی وجہ سے چھوٹا کسان دن بدن معاشی طور پر بدحالی کا شکار اور جاگیر دار وڈیروں کے اثاثے بڑھ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے کپتان نے اقتدار میں آنے سے قبل زراعت کی ترقی اور کسانوں کی خوشحالی کیلئے اتنے دعوے کیے تھے جو لکھنے لگیں تو صفحات کم پڑ جائیں مگر دعوے ختم نہ ہوں، مگر پی ٹی آئی کے کپتان برسر اقتدار آ کر اپنی حکومت کا پانچ سالہ مدت کا آدھا دورانیہ گزار چکے ہیں مگر زراعت اور کسان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے ان کی حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ملک میں معیشت کا پہیہ جام دکھائی دیتا ہے۔
کپتان جی چاہئے تو یہ تھا کہ حالیہ بجٹ میں حکومت کی طرف سے کھاد بیج زرعی آلات، زرعی ادویات اور زراعت میں استعمال ہونے والی دیگر اشیاء پر عائد ٹیکس ختم کر دیا جاتا تو زراعت ترقی کی طرف رواں دواں ہو جاتی، مگر ایسا نہیں ہے، کپتان جی اب بھی وقت ہے کہ زراعت میں استعمال ہونے والی اشیاء پر سبسڈی دی جائے اور کسانوں پر عائد بے

جا ٹیکس ختم کیے جائیں، جب تک شعبہ زراعت میں استعمال ہونے والی اشیاء پر ٹیکسز ختم نہیں ہوتے ملکی معیشت میں استحکام پیدا نہیں ہو سکتا۔ کپتان جی شعبہ زراعت میں استعمال ہونے والی اشیاء پر دنیا کے اکثر ممالک کی طرح جنرل سیلز ٹیکس کو ختم کیا جائے، کسانوں کو فصلیں سیراب کرنے کیلئے نہری پانی کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویلوں کیلئے سستی بجلی کی فراہمی کی جائے اور محکمہ زراعت، ریونیو کے کمپیوٹر سنٹرز اور ایریگیشن ڈیپارٹمنٹس سمیت زراعت سے وابستہ دیگر اداروں کی ترجیح بنیادوں پر اصلاح کی جائے،

دوسرے ملکوں کی طرح زرعی یونیورسٹیوں میں زیادہ سے زیادہ پیداوار دینے والے پودے اور بیج تیار کر کے کسانوں کو سستے داموں دیئے جائیں، کپتان جی آپ کو یاد دلا دوں، آپ کے اقتدار کا دورانیہ نصف سے زیادہ ختم ہو گیا ہے، وقت گزرتے دیر نہیں لگتی، ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے اور ملکی معیشت کو سنبھالا دینے میں اہم کردار ادا کرنے والے شعبہ زراعت کے مسائل کے حل کیلئے اگر کچھ نہ کیا گیا تو پھر ملکی معیشت کو ڈوبنے سے کوئی نہیں

روک سکتا، یاد رکھنا اگر معیشت ڈوب گئی تو حکومت بھی ڈوب جائے گی۔ تو کپتان جی اب بھی وقت ہے کہ زراعت کے شعبہ کو سہارا دینے کیلئے ہنگامی اقدامات اٹھائیں، تا کہ ملک اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے ورنہ کپتان جی آپ کی حکومت کو بھی ملک کی سیاسی تاریخ لکھنے والے ماضی کی حکومتوں سے ہی تشبیہ دیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں