رنگِ نوا 311

رنگِ نوا

رنگِ نوا

تحریر:نوید ملک

علماء زیادہ سے زیادہ بازار جایا کریں

میر تقی میر کہتے ہیں
شاید متاع حسن کھلی ہے کسو کی آج
ہنگامہ حشر کا سا ہے بازار کی طرف

ہم بھی بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ان کا زمانہ سادہ ہوا کرتا تھا۔ممکن ہے میر نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہو مگر اس شعر میں موجودہ دور کے ہر بازار کی تمام تصویریں دیکھ جا سکتی ہیں۔بازار ہر نگاہ اور ہر دل کے لیے کمرہء امتحان ہے۔بازار اُس کنوئیں کا نام ہے جہاں اندھوں اور آنکھوں والوں کو ہر حال میں گرنا پڑتا ہے۔بعض بازار وں کی عریانی پر سڑکیں بھی چٹکنے لگ جاتی ہیں۔نئے دن کا سورج پہلے دن کے جگنوؤں کو دفن کر کے غم کی دھوپ برساتا ہے۔

بازاروں نے ہمارے نوجوانوں کو چبا ڈالا ہے، ان کے سینوں کو نوچ لیا ہے، اُن کی آنکھوں کو کرید کرید کر اندھا کر دیا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ بازاروں کی ریل گاڑیاں تیز رفتار ہوتی جا رہی ہیں، چھوٹے، بڑے، بوڑھے بچے، مرد، عورت سب میں سے کچھ کو ریل گاڑیاں کچل دیتی ہیں، کچھ سالم اور کچھ آدھے ایمان کے ساتھ گھر واپس لوٹ آتے ہیں۔

وہ لوگ ہمارے عہد کے اولیاء ہیں جو اپنے قدموں کی محافظت میں پھونک پھونک کر نگاہ اٹھاتے ہیں اور کوؤں میں کبوتر کی طرح اڑانیں بھر کر کسی بھی ڈار میں شامل ہوئے بغیر گھر میں واپس آ جاتے ہیں۔ماجد صدیقی کا شعر ان اولیاء کی نذر کرنا چاہتا ہوں:-

کارواں کو ترس گئے ہوں گے
چلنے والے قدم قدم تنہا

میرے نزدیک ایک طبقہ ایسا ہے جسے بازار زیادہ جانا چاہیے۔ چھپر ہوٹلوں میں نوجوانوں کے ساتھ چائے پینی چاہیے، دکانوں میں بیٹھ کر وقت گزارنا چاہیے، عام شہریوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے چاہییں، اساتذہ کے ساتھ باتیں کرنی چاہییں اور معمولاتِ زندگی میں اتنا ہی متحرک رہنا چاہیے جتنا کہ عوام الناس رہتی ہے۔مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ زیادہ تر علما خود کو بڑا متصور کر کے عام سطح کے آدمی کو سلام دینا بھی گوارا نہیں کرتے،

اگر کہیں آمنا سامنا ہو بھی جائے تو اتنی تیزی سے گزر جاتے ہیں جیسے انھیں کوئی خطرہ لاحق ہو۔دائیں بائیں دیکھنا انھیں بالکل گوارا نہیں ہوتا۔معاملہ یہاں بھی سٹیٹس کا ہی ہے۔ یہ میں اپنا ذاتی تجربہ پیش کر رہا ہوں، ممکن ہے بہت سے لوگ میری بات سے اتفاق نہ کریں۔جو چھوٹے علماء ہیں انھیں پانچ یا دس ہزار کی تنخواہ دے کر پانچ وقت کے لیے مسجد میں قید کر لیا جاتا ہے۔ان کا کام نماز پڑھانا اور بچو ں کو تجوید سکھانا ہے۔

فوتگی، چالیسواں وغیرہ سے ان کو بونس بھی ملتا ہے۔بعض علماء کا لباس، بول چال اور عادات و اطوار نمود و نمائش کا پرچار کرتے ہیں۔وہ اگر بازار سے گزرتے بھی ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگائیں۔انھیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ بازار میں کیا ہو رہا ہے، انھیں معلوم ہے کہ معاوضے کے عوض نمازِ جمعہ، نمازِ عید، ختم شریف وغیرہ میں یہ بازار والے پوسٹر پر ان کا نام پڑھ کر خود ہی آ جائیں گے،

ان کی شعلہ بیانی پر نعرے لگائیں گے، عشق کے ترانے گائیں گے اور پھر لنگر پر ٹوٹ پڑنے کے بعد گھروں کو اسی ذہن اور اسی سوچ کے ساتھ لوٹ جائیں گے۔میرا سوال یہ ہے کہ آخر یہ بازار والے کیسے سدھریں گے۔چراغ کی خواہش ہے کہ دیوار کے ساتھ لگا رہے اور اندھیرا جہاں تک جا سکتا ہے جا رہا ہے۔میرا مقصد تنقید نہیں بلکہ درخواست ہے۔
میری درخواست ہے کہ علماء اپنے علم پر تفاخر کو ترک کر کے بازاروں میں زیادہ سے زیادہ جایا کریں، نوجوانوں سے دوستیاں کریں اور غیر محسوس طریقے سے انھیں راہِ راست پر لائیں۔ہمارے پیارے نبیﷺ کی سنتوں کو زندہ کریں اور لوگوں کو حقیقی زندگی کی طرف لے کر آئیں۔الفرقان، آیت 7 میں ارشاد ہے:-
اور انہوں نے کہا یہ کیسا رسولﷺ ہے؟ کہ کھانا کھاتا ہیاور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے(الفرقان-7)
کیا ہمارے

پیارے نبیﷺ نے عام لوگوں سے ملنا جلنا کم رکھا تھا؟ کیا بازار والوں کو انھی کے رحم و کرم پر چھوڑا تھا؟ ہرگز نہیں۔اگر اس حوالے سے احادیث سے مواد اکھٹا کیا جائے تو ہزاروں صفحات بھر جائیں۔ یقین مانیے کہ جس دن بازار والوں کو یقین آ گیا کہ یہ علماء انھی طرح کے انسان ہیں فرق صرف علم و عمل کا ہے تو جوق در جوق لوگ اندھیروں سے روشنیوں کی طرف مراجعت کریں گے۔بازار والوں کو کردار والے بنانے کے لیے عہدِ حاضر کے

علماء کو نمود و نمائش کی قربانی دینی پڑے گی۔اسلام تو جہدِ مسلسل سے پھیلا، لوگوں کی فکر تعمیر ہوئی۔صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نہ دھوپ دیکھی نہ بارش، نہ سردی دیکھی نہ گرمی۔نہ امن دیکھا نہ جنگ۔علماء کو تو تلوار بھی نہیں اٹھانی بس بازار تک جا کر اپنے افکار اور کردار کی خوشبو پھیلانی ہے۔زیادہ نہیں تو تھوڑی بہت ہی سہی۔آخر میں ایک نعت سے انتخاب:

وہ آئے آمنہ ؑ بی بی کے گھر چراغ جلے
اجالے مٹنے لگے تھے مگر چراغ جلے

وہ دشت کیسا تھا جس پر فلک کی نظریں تھیں
وہ کیسا حجرہ تھا جس میں نڈر چراغ جلے

یہاں ستارے چمکنے سے پہلے ڈرتے ہیں
وہ شہر ہو گا نبی کا اگر چراغ جلے

مرے نبیﷺ کے لیے جو بھی جھلملائے تھے
زمانے بھر میں وہی معتبر چراغ جلے

ہر اک ستارے سے اُجلے کئی ستارے نوید
ہر اک چراغ کے زیرِ اثر چراغ جلے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں