کیچڑ ہی میں کنول کھلا کرتے ہیں
نقاش نائطی
۔ +966504960485
دلیپ کمار نے ابتداء میں اپنی اداکاری سے اپنے چاہنے والوں کے دل و دماغ میں جو مقام و قدر منزلت حاصل کی تھی، ادھیڑ عمر میں بھی وہی اداکاری کے جوہر ان میں باقی ہیں یہ انہوں نے اپنی فلم شکتی اور ودھاتا میں ثابت بھی کیا تھا اور اپنی زندگی کے صد سالہ تابناک دور سے صرف دو قدم پیچھے رہتے رہتے بھی، اپنی پوری فلمی و ذاتی زندگی میں بھی، اپنے قائم کئےمقام متمیز کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تھے۔ کسی بڑے سے بڑے مقام کو حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جو اس مقام کی تبریک کو باقی رکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔
دلیب کمار صاحب اپنی ڈھلتی عمر میں، فلموں میں کام کرتے ہوئے اور نہ پیسے کے حصول میں چھچورے اشتہارات کرتے ہوئے یا کسی ذاتی محفلوں میں کوئی چھچوری حرکت کرتے ہوئے، اپنے مقام متمئز کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچنے دی ہے،
اپنے مقام تبریک کی گریما یا مقام ارفع کو،اتنے لمبے عرصے تک سنبھال کر لے جانے والی شخصیت، نہ ہی بالی ووڈ میں اور نہ ہی ہالی ووڈ میں مل پاتی ہے۔ اس اعتبار سے اگر کسی بھید بھاؤ اور مذہبی منافرت سے اوپر اٹھ کر،کسی کو بیسویں اور اکیسویں صدی کا تفریحی دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ ملینیم ایکٹر ایوارڈ کا حقدار کسی کو ٹیرایا جاسکتا ہے تو وہ دلیب کمار ہی ہیں
https://fb.watch/v/vYkig8D4/
اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتۡ اَوۡدِیَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحۡتَمَلَ السَّیۡلُ زَبَدًا رَّابِیًا ؕ وَ مِمَّا یُوۡقِدُوۡنَ عَلَیۡہِ فِی النَّارِ ابۡتِغَآءَ حِلۡیَۃٍ اَوۡ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثۡلُہٗ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡحَقَّ وَ الۡبَاطِلَ ۬ ؕ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذۡہَبُ جُفَآءً ۚ “وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ ﴿ؕ۱۷﴾سورة الرعد
اسی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنی اپنی وسعت کے مطابق نالے بہہ نکلے ۔ پھر پانی کے ریلے نے اوپر چڑھے جھاگ کو اٹھا لیا اور اس چیز میں بھی جس کو آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں زیور یا سازو سامان کے لئے اسی طرح کے جھاگ ہیں اسی طرح اللہ تعالٰی حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے اب جھاگ تو نا کارہ ہو کر چلا جا تا ہے “لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے ۔ وہ زمین میں ٹھہر رہتی ہے” اللہ تعالٰی اسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہے ۔
www.theislam360.com
ہم اس مسلم قوم میں سے ہیں جس کی شاندار تاریخ میں لکھے گئے مختلف واقعات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ کیا ہم بھول گئے اس واقعہ کو، جس میں اس فاحشہ عورت، جو اس زمانے میں ایک کتے کے پلے کو پیاس سے تڑپتے دیکھ، پاس کے کوئیں پر رسی کے ہوتے لوٹا نہ پانے کی وجہ ،اپنے کڑھاؤ دار جوتے کو رسی سے باندھ، کوئیں سے پانی نکال ، چند قطرے پلا، کتے کی پیاس بجھانے کی سعی کرنے پر، خوش ہوکر رب کائینات نے اس فاحشہ عورت کی مغفرت کا فیصلہ سنایا تھا۔ کیا ہم بھول گئے اس حکم خداوندی کو کہ “خالق کائینات کی رضا مخلوق کی خدمت ہی سے ممکن ہے”
کیا ہمیں وہ واقعات یاد نہ رہے کہ خاتم الانبیاء کے منصب تمکنت پر براجمان ہونے سے پہلے، چالیس سال تک آپ ﷺ نے اپنی ایمانت داری، دیانت داری، حق گوئی اور چھوٹوں سے شفقت، تو بڑوں کی عزت وتکریم ہی کے، اپنے حسن اخلاق و خدمت خلق سے معاشرے والوں کے دل کیا نہیں جیتے تھے؟ کیا آپ ﷺ کے حسن اخلاق کے بغیر قال اللہ اور قال الرسول مفید و اثر انگیز ہونے ممکن تھے؟ پھر کیسے آج کے معاشرے کے والیاں دین واسلام میں بھی ،حسن اخلاق کے فقدان اور اپنے اور اپنوں کے، ہر محاذ و محافل واداروں میں نمایاں رہنے کی ہوڑ کے چلتے،
اور معاشرے کے خدام میں سے بعض کے منکرات اسلام پر بھی قائم رہتے، اور ان کی دولت، اسلامی اقدار کے خلاف پاتے ہوئے بھی، صرف اس لئے، صرف نظر کئے رہتے ہیں کہ وہ وقت کے تونگر ہیں، اور انکے دینی ادارے، ایسے ہی تونگروں کی دریا دلی پر قائم ہیں۔ ایسے تونگروں کے صناء خواں علماء کرام کی معاشرے میں عزت و قدر ومنزلت کیسے باقی رہ پاتی ہے؟ کسی کےسامنے یا ان کے منھ پرکی گئی عزت و تکریم کے مقابلے، ان کے پیٹ پیچھے یا ان کے بعد موت، ان کی تعریف و توصیف ہی، ان کے اخلاق حمیدہ کو درشایا کرتی ہے
آج بالی ووڈ کے مشہور کلاکار یوسف خان عرف عام دلیپ کمار علیہ الرحمہ کی وفات پرکچھ دن گزرنےکےبعد، ان کے اخلاق حمیدہ و انسانیت کی خدمات کی تعریف و توصیف میں جہاں بہت کچھ پڑھنے کو مل رہا ہے اور جہاں بشمول ہمارے کئی ایک لوگ انہیں علیہ الرحمہ لکھ کر، اللہ کے یہاں انکے مغفور ہونے کی امید جتا رہے ہیں، وہیں پر چند ناعاقبت اندیش خود ساختہ خدا ترس لوگ، یوسف خان کو علیہ الرحمہ لکھنے پر چراغ پا نظر آتے ہیں
گویا وہ علیہ الرحمہ جیسے القاب کو سفید ریشوں کی ہی ملکیت سمجھتے ہوں۔ صوم و صلاة، ذکر و اذکار کےلئے خالق کائینات کے پاس فرشتوں کی کیا کمی تھی؟ جو صوم و صلاة، ذکر واذکار کے معیار پر انسانوں کا امتحان لینا مقصود ہوتا؟ جس طرح ممتہم کلاس کے بچوں کو، ایک ہی سوال سے امتحان نہیں لیا کرتا بلکہ طالب علم کی استعداد کے اعتبار سے، الگ الگ تلمیذ سے الگ الگ سوال کیا کرتے ہیں، معاشرے میں انہیں تفویض ذمہ داریوں کے اعتبارسےکل محشرمیں،
ہم سے سوالات کئے جائیں گے۔ بادشاہ سے عدل و انصاف، عالم سے اسکے تصرف علم اور تونگر سے دولت کے استعمال جیسے سوال کئے جائینگے تو اسی طرح ہر مسلمان سے، اسے جس ماحول و کسم و پرسی میں رکھا گیا ہے، اسی اعتبار سے سوال کئے جائیں گے۔کیا ائمہ ستہ میں سے ایک جلیل القدر امام ابن جوزی کی تقدیر پر لکھی وہ معرکتہ الارا کتاب تلبیس ابلیس کے وہ اقتباسات کیا ہم بھول گئے کہ ہر انسان اپنی لکھی ہوئی تقدیر مطابق زندگی گزارے کا پابند ہے اور اسے جس حال میں رکھا گیا ہے اسی اعتبار سے اس سے آخرت میں سوال ہونگے واللہ اعلم
اللہ کے رسول ﷺ نے مختلف موقعوں پر ہم مسلمانوں کو لاتشرک باللہ، لا تشرک باللہ کہتے ہوئے اللہ کی ذات میں کسی کے بھی شریک ہونے کے یقین، بنانے سے منع کیا تھا یہاں تک کہ بعض صحابہ کرام کے جنت میں دخول کی آسان راہ پوچھنے پر بھی لا تشرک باللہ کی نصیحت کی تھی آج کے اس منافرت آمیز دور میں بھی، لا تشرک باللہ کے اللہ کے رسول ﷺ کی ہدایت پر یوسف خان جیسا کوئی سختی سے عمل پیرا پایا جاتا ہے تو کیا و بعد موت رحمتہ اللہ علیہ کہے جانے کا حقدار نہیں پایا جائیگا؟
اور بہت سے محترم باریش دین دار اپنے زمانے کے کفریہ عقیدے، جتنے کنکر اتنے شنکر سے بمثل وحدة الوجود جیسے گمراہ کن عقیدے پر عمل پیرا رہتے ہوئے بھی وہ علیہ الرحمہ کے حقدار ٹہرائے جائیں گے یہ کہاں کی اسلامی تعلیمات ہے؟
آخرت کی کامیابی کی کسوٹی کھرے ایمان پر ہوا کرتی ہے اعمال جنت کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتے ہیں
دلیپ کمار کی وفات بعد ان کی تعریف میں بہت سے مضامین نظروں سے گزرے لیکن کسی عالم کا لکھا یہ مضمون اوراس میں مشترکہ ھند و پاک بنگلہ دیش کے ایک معتبر عالم دین حضرت مولانا پاریکھ صاحب علیہ الرحمہ کے، دلیب کمار کے متعلق کہے جملوں کو یہاں نقل کررہے ہیں
دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور سے فراغت کے بعد میں میسور کے قریب “دار الأمور سری رنگا پٹنہ” میں زیر تعلیم تھا جو علماء اور ماہرین فن کے زیر نگرانی ایک سالہ کورس برائے کمپیوٹر، انگریزی اور جدید علوم کی مفت تعلیم مع قیام و طعام کی غرض سے قائم کیا گیا تھا
دارالأمور کو ملک و بیرون کے مشہور علماء بارہا تشریف لاتے رہے حضرت مولانا پاریکھ صاحب رحمہ اللہ علیہ بھی کئی بار تشریف لائے اور ایک مرتبہ درس کے دوران حضرت نے اپنا واقعہ بیان فرمایا.
ایک دن حضرت مولانا پاریکھ صاحب رحمہ اللہ علیہ دلیپ کمار صاحب کے بنگلہ ممبئی تشریف لے گئے،گفتگو کے دوران مغرب کی نماز کا وقت آگیا اور دلیپ کمار کے گھر میں عبادت کیلئے ایک مخصوص کمرہ تھا تو دلیپ کمار نے کہا کہ حضرت امامت فرمائیں تو مولانا پاریکھ صاحب نے فرمایا یوسف صاحب نماز آپ پڑھائیں گے اور میں آپ کا مصلی رہوں گا، تو یوسف خان صاحب نے بہترین لہجہ کے ساتھ تجوید کا پورا لحاظ کرتے ہوئے نماز پڑھائی. (یوسف خان سے امامت کروانا یہ در اصل مولانا پاریکھ صاحب کی اصلاح و تربیت کا ایک انداز تھا)
مولانا پاریکھ صاحب نے فرمایا کہ دلیپ کمار مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے اور فارسی زبان پر عبور حاصل تھا اور علماء و بزرگوں کے بھی قدردان تھے علی میاں رحمہ اللہ علیہ اور بنگلور کے سبیل الرشاد کے بڑے حضرت کی شخصیت سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے اور حج کی ادائیگی کیلئے حلال کمائی کا ایک ایک پیسہ جمع کیا کرتے تھے
مولانا پاریکھ صاحب نے فرمایا کہ امام اعظم کے قول کے مطابق “میرے ایمان اور دلیپ کمار کے ایمان میں ذرہ برابر فرق نہیں اور ایمان نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے ایمان پتھر کی لکیر ہے البتہ اعمال میں کمی زیادتی ممکن ہے”
“الإیمان یزید و ینقص یہ ایک مستقل علمی بحث ہے”
اللہ تعالیٰ یوسف خان صاحب کے گناہوں کو معاف فرمائیں اور انکے نیک اعمال کے بدل انکی مغفرت فرمائیں.
امریکہ سے ڈاکٹر باقر ایم قریشی کی ایک آڈیوز کلپ سننے کا اتفاق ہوا، جس میں انہوں نے شہر حیدر کی مشہور شخصیت المحترم خان عبدالطیف خان کے حوالے سے دکن میڈیکل کالج کےآج قائم رہنےکے سلسلے میں، جو حقائق ظاہر کئے ہیں، اسے جاننے کے بعد، مرحوم دلیب کمار علیہ الرحمہ کی قدر و منزلت اور بڑھ گئی ہے اور جنوبی ہندستان حیدر آباد کی شان سمجھے جانے والے دکن میڈیکل کالج جو آج اپنی تابناکی سے مسلم امہ کے ساتھ ہی ساتھ، برادران وطن کی تربیت طب پر معمور ہے آس کی بقاء کے لئے، کہیں نہ کہیں ممبئی مایا نگری بالی ووڈ کے شہنشاء دلیب کمار ہی ذمہ دار ہیں
جنوری 1983 میں جب ٹی ڈی پی سربراہ کی حیثیت سے تلگو فلمی دنیا کے بھگوان سمجھے جانے والے فلمی اداکار این ٹی راما راؤ نے، اس وقت کے مشترکہ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف برداری لی تھی تو شاید اس وقت انکے اطراف موجود مسلم دشمن عناصر کے دباؤ میں یا ان سے پہلے آندھرا پر حکومت کررہی کانگرئس سرکار کے حیدرآباد میں شروع کئے گئے، دکن میڈیکل کالج تکمیل کے مراحل طے بھی کرلے تو اسکی ستائش کانگرئس کوجائیگی اس لئے چیف منسٹر بنتے ہی این ٹی راماراؤ نے سب سے پہلے اپنے فرمان سے
دکن میڈیکل کالج کے پورے عمل ہی کی منسوخی کا اعلان کیا تھا۔ جب یہ بات ممبئی مایانگری کے شہنشاء دلیپ کمار کو ہوئی تو انہوں نے ان ایام اپنی فلمی مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اپنی کار سے براستہ حیدر پہنچے تھے اور علی الصباح آندھرا چیف منسٹر این ٹی راماراؤکے دفتر پہنچ گئے تھے۔ این ٹی آر بھلے ہی تلگو فلم نگری کی اداکاری کا دیوتا مانے جاتے ہوں لیکن شہنشاہ جذبات دلیپ کمار بھی تو پورے بھارت کے کروڑوں لوگوں کے
دلوں پر راج کرتے تھے۔ دلیب کمار کو اپنے آفس میں دیکھ کر، تلگو فلم نگری کا دیوتا سمجھا جانے والا این ٹی آر اپنے ھندوانا رسم و رواج مطابق بالی ووڈ کے شہنشاہ جذبات کے قدموں پر گرپڑتا ہے اور قدم بوسی کرنے لگتا ہے۔ پوری تبریک کے بعد این ٹی آر نے دلیپ کمار سے از راہ عقیدت کہا کہ آپ اتنی تکلیف اٹھا حیدر آباد کیوں آئے ہیں؟کوئی کام ہمارے لائق ہوتا تو حکم کردیتے بندہ خود ممبئی آپ کے در پہنچ جاتا یا فون ہی کردیتے آپ کا حکم سر آنکھوں پر پورا کیا جاتا! دلیب کمار نے اپنے تئیں این ٹی آر کے جذبات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا
میری قوم کی تعلیم یافتگی کا معاملہ ہے آپ نے یہ جو دکن کالج کی منسوخی کا فرمان جاری کیا پے تو ہمارے لئے ہی صحیح، اسے دوبارہ شروع کروا؛دیجئے بڑی مہربانی ہوگی۔ یہ سننا تھا این ٹی آر نے اپنے پی اے کو گھنٹی بجا بلایا اور فوری طور دکن میڈیکل کالج دوبارہ شروع کئے جانے کے آفیشل آرڈر جاری کروانے اور اس ضمن میں سرکاری گزٹ پی او جاری کروانے کے احکامات جاری کردیئے تھے۔ آج جو قوم ملت کے نام نہاد سیاست دان دکن
میڈیکل کالج قائم ہونے کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ جنوری 1983کے ابتدائی تاریخوں میں جب اس وقت کے چیف منسٹر آندھرا پردیش این ٹی راما راؤ نے، دکن میڈیکل کالج کی منسوخی کے آرڈر پاس کئے تھے، ایسا کیا ہوا تھا کہ کچھ ہی دنوں بعد اسی این ٹی آر نے دکن میڈیکل کالج دوبارہ شروع کروانے کے آحکام کیوں اور کیسے جاری کئے تھے؟ ان تاریخوں میں آندھرا چیف منسٹر این ٹی راماراؤ سے ان کے
چیف منسٹرآفس، دلیپ کمار کی ملاقات کی تفصیل بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔ممکن ہے کہ بعد کے دنوں میں دکن میڈیکل کالج کی تکمیل اور اس کی آبیاری میں اے آئی ایم آئی کا بھرپور تعاون رہا ہو۔لیکن دکن میڈیکل کالج یا اس سے متصل مختلف شاخوں کی خدمات، امت مسلمہ کے ساتھ ہی ساتھ برادران وطن کو جب تک ملتی رہے گی اور دکن میڈیکل کالج سے فارغ دکتور انسان و حیوانات خالق کائیبات کی کل مخلوق سمیت عالم کی انسانیت کی جب تک، اور جیسے بھی خدمات انجام دیتےرہیں گے یقینا اس کا اجر و ثواب المحترم متوفی یوسف خان عرف عام دلیب کمار کو آخرت میں انکے کھاتے میں جمع ہوتے ہوئے، آخرت کے اعتبار سے جنت میں انکے درجات بلند کرتے رہیں گے۔ انشاءاللہ ونا علینا الا البل