254

اِک مرگِ ناگہاں

اِک مرگِ ناگہاں

تحریر/عبدالوحیدقاسمی
فضل الرحمٰن صدیقی صاحب میرے قریبی اور مخلص دوستوں میں سے ہیں۔دارارقم سکول ظفروال کیتدریسی زمانے میں تین چار سال انتہائی قرابت میں گزرے۔میں نیاس زمان?ِ قرابت میں انہیں انتہائی مخلص، خوش مزاج،باوفا، ہردلعزیز،اور وسعتِ قلبی رکھنے والا شخص پایا۔حدیثِ پاک میں ہے کہ کسی سے مسکرا کر ملنا بھی نیکی ہے جب بھی موصوف کو اس پیرائے میں دیکھتا ہوں تو محسوس یہ ہوتا ہے ان کی نیکیاں تو بیحد و بے انتہا ہونگی کیوں کہ ان کوجب بھی بھی دیکھامسکراتیدیکھا۔بلکہ سکول لائِف میں کئی دفعہ ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے

تھیکہ لوگ آفس میں ڈھیروں شکایات لے کرآتے تھے۔کسی کا موڈ آف ہوتاتوکوئی غصے میں آتا۔اور کسی کے چہریپراس کی ذاتی یا گھریلو پریشانیوں کے آثار نمایاں ہوتے تھے۔لیکن کیا کہنے فضل الرحمٰن صاحب کے کہ ہر کسی کا استقبال کھڑے ہو کر دونوں بازو دراز کرکے کِھلتے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ کرتے۔پھر جب گفتگو کرتے آنے والا اپنا غم تو کیا آنے کا مقصد بھی بھول جاتا اور ان کی لذیذ گفتگو سے مستفید ہوتا۔سٹاف پر بھی مہربان تھے

۔مشہور تھا کہ اگر کسی کو پیار سے کام لینے کا طریقہ آتا ہے تو وہ فضل صاحب ہیں۔یہ ان ہی کا کمال ہے۔آج اچانک خبر ملی کہ ان کے بیٹیحافظ ابسم صدیقی اچانک سینہ میں اچانک درداٹھنے کے باعث اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں تو دل دھک سے رہ گیا۔یہ غم کا اس لیے بھی زیادہ محسوس ہو رہاتھا کہ یہ معصوم اور خاموش مزاج بچہ میرے ساتھ سکول جایا کرتا تھا اور یہ میرے سامنے بڑا ہوا۔اس لییابسم مجھے اپنے بچوں کی طرح محسوس ہوتا تھا۔موت زندگی اللہ کے قبضے میں ہے۔ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے۔وہ چاہے بچپن میں لے جائے وہ چاہے

جوانی میں لے جائے وہ چاہے بڑھاپے میں لے جائے۔جب موت کا وقت آجاتا ہے تو کوئی اسے ٹال نہیں سکتا۔وہ اس دنیا کا حقیقی مالک ہے۔فضل الرحمٰن صدیقی صاحب کا وہ چہرہ جسے ہمیشہ مسکراتے دیکھا آج پہلی دفعہ اسیآنسوؤں سے تر دیکھا۔وہ فضل صاحب جن سے میں اپنے غم اور خوشیاں بانٹا کرتا تھا وہ مجھے دلاسہ دیا کرتے اور انتہائی اچھے اور مفید مشوروں سے نوازتے۔آج ان کو دلاسہ دینے میں خود کو بیبس پایا۔کیوں کہ اس دکھ اور

غم کی گھڑی نے خود مجھے بھی چیر کر رکھ دیا تھا۔بس زبان تھی کہ خاموش ہو کے رہ گئی۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ تعالی مولانا قاسم صدیقی صاحب،فضل الرحمٰن صدیقی صاحب،حبیب الرحمٰن صدیقی صاحب،سعید صدیقی صاحب اور اس تمام معزز فیملی کو اس کڑی آزمائش میں صبر عطا فرمائے اورحافظ ابسم مرحوم کو تمام خاندان کی نجات کا ذریعہ بنائے۔آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں