ووٹ قوم کی امانت
ازقلم: چوہدری ثاقب مشتاق
آج کشمیر کی الیکشن کمپین کا آخری دن ہے، اور ایک دن کے بعد آپ نے اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنا ہے۔ آپ جو بویں گئے وہی اگلے پانچ سال کاٹیں گئے۔ کل کا دن سکون سے سوچیں۔ تمام جزبات اور ہمدردیوں کو ایک طرف رکھ کر سوچیں۔ تاکہ آنے والے پانچ سال آپ کو اپنے مسائل حل کروانے کے لیے احتجاج نہ کرنا پڑئے۔
کچھ موسمی پرندے صرف پانچ سال بعد نظر آتے ہیں۔ اور آپ کو ہر طرح کے سبز باغ دیکھاتے ہیں۔ کہی علاقی ازم کے نام پر تو کہی
برادری ازم کے نام پر۔ کہی مرکزی حکومت کے سبز باغ دیکھا کر تو کہی پیسوں کا لالچ دے کر ایسا ماحول بنا لیا جاتا ہے کہ ہماری سادہ لوح عوام ان کے گیت گاتے نہیں تھکتی۔ اور الیکشن کے نام پر ان حکمرانوں کے خاطر دوستیاں اور تعلق تک ختم کر دیتے ہیں۔ تیرا لیڈر مردہ باد اور میرا لیڈر زندہ باد کا ورد کرتے نہیں تھکتے۔ جو آج کل آپ کے ساتھ طرح طرح کے دعوے کرتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ وہ پانچ سال پہلے کہاں تھے۔۔؟ ان کے پاس اور ان کی جماعتوں کے پاس خدمت اور تعمیر و ترقی کا کیا منشور ہے۔۔؟؟؟
آپ کو فیصلہ کرنا ہے
کہ کون سی جماعت بغیر کسی لالچ کے آپ کی خدمت میں مصروف عمل ہوتی ہے۔؟ زلزلہ ہو یا سیلاب، لائین آف کنٹرول پر فائرنگ ہو یا کہی کوئی اور حادثہ کون سے لوگ سب سے پہلے آپ کے پاس مدد کو آتے ہیں۔؟ یقینن آپ کا جواب جماعت اسلامی ہو گا، یہی لوگ مشکل وقت میں آپ کے دستے بازوں ہوتے ہیں۔؟ اصل میں یہی لوگ آپ کے ووٹ کے اصل حقدار ہوتے ہیں۔
لیکن آپ تو ان حکمرانوں سے اپنی تقدیر بدلنے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں جن کو خود اپنی تقدیر پر بھروسہ نہیں۔ کون آپ کی تقدیر بدلے گا۔ یہ حکمران آپ کی تقدیر بدلیں گئے۔؟؟ جو 30,30 سالوں سے ہم پر مسلط ہیں وہ کیا ہماری تقدیر بدلیں گئے؟ ایک ایک کو آزما کے دیکھ لیا۔ جمہوریت کا راگ لاپنے والوں کو بھی۔ برادری کے نام پر دھوکہ دینے والوں کو بھی۔ ٹوٹی کھمبے کی سیاست کرنے والوں کو بھی۔ تبدیلی کا ڈھونگ رچانے والوں کو بھی۔ سب کو آزما لیا۔ جن حکمرانوں کو آپ ووٹ دیتے ہیں انہیں پانچ سال گالیاں بھی دیتے ہیں۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کنٹرول لائین پر زخمی ہونے والوں کے لیے ہسپتال میں پٹی تک نہیں ملتی تھی۔ مریض کو راولاکوٹ شفٹ کرنے کے لیے لواحقین کے پاس پیسے تک نہیں تھے اور ہمارے حکمرانوں کے بیٹے بھی سرکاری گاڑیوں میں پکنک مناتے رہے۔
میرے دوستو! ان حکمرانوں کے کھلوکھلے اور جزباتی نعروں پہ مت جانا۔ ان کے پاس نہ کوئی منشور ہے نہ دستور۔ یہ موسمی پرندے 25 جولائی کے بعد اپنی اڑان بھر جائیں گئے۔ پھر پانچ سال بعد نئے دعوں اور وعدوں کے ساتھ نظر آئیں گئے۔ ان کی خاطر اپنے تعلقات خراب مت کریں۔ آج رات سونے سے پہلے اپنے ضمیر کو جگا کر سوئیں۔ اللہ پاک اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ اپنی حالت کو بدلیں
۔ اپنے نسلوں کے مستقبل کا سوچ کر فیصلہ کریں۔ ورنہ پھر پانچ سال تک آپ کو کوئی حق نہیں بنتا کہ آپ اپنے حکمرانوں کو قوسیں۔ پھر مہنگائی اور بےروزگاری کا رونا مت رویے گا۔ پھر اپنے علاقے کی پسمندگی کے ذمادار انھی حکمرانوں کو مت ٹھہرائے گا۔ کیونکہ یہ آپ کے ووٹ کی طاقت سے آپ پر مسلط ہوں گئے۔ اسی لیے ووٹ کو قوم کی امانت کہا جاتا ہے۔ اس امانت کو اپنی آنے والی نسلوں کے سنہرےمستقبل کے لیے استعمال کریں۔ اللہ پاک آپ کو اور مجھے رائے حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین