’’عید الاضحی پر پنجاب میں صفائی کا فقدان‘‘ 138

’’کرپشن کا ناسور اور کپتان کا عزم‘‘

’’کرپشن کا ناسور اور کپتان کا عزم‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100
ہمارے ملک کا یہ المیہ رہا ہے کہ جب سے یہ وجود میں آیا ہے اس وقت سے سیاستدان، بیوروکریٹ، چھوٹے بڑے ملازم، جاگیردار، وڈیرے، صنعتکار ، تاجر، عوام حتی کہ ہر طبقہ کے لوگوں کی اکثریت اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے، جسے ’’کرپشن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ملک میں کرپشن کے بڑے بڑے سکینڈل آئے روز منظر عام پر آتے ہیں، چند روز قبل سامنے آنے والے رنگ روڈ سکینڈل نے تو عوام کو آئینہ دکھا دیا، ملک کے وزیر اعظم عمران خان نے معاملہ کا نوٹس لیا، ہنگامی انکوائری ہوئی، صرف اس ایک منصوبے میں اربوں روپے کی کرپشن سامنے آنے

پر سابق کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) محمد محمود، سابق چیئر مین لینڈ ایکوزیشن وسیم تابش کو گرفتار کر لیا گیا، جبکہ سیاسی شخصیات وزیر اعظم کے دوست زلفی بخاری، سابق بیوروکریٹ توقیر شاہ اور وفاقی وزیر غلام سرور سے تفتیش جاری ہے، ذرائع کہتے ہیں کہ کرپشن کے اس سکینڈل کے کھیل میں ان شخصیات کا بھی اہم رول تھا، اینٹی کرپشن حکام کی رپورٹ کے مطابق وسیم تابش نے منظوری کے بغیر روڈ کی الائنمنٹ تبدیل کی جس سے اس منصوبے کی لاگت میں کروڑوں روپے کا اضافہ ہوا، بغیر ضرورت کے لوکل ٹرانسپورٹ کیلئے راستے کھولے گئے

جس سے کئی ہائوسنگ سوسائٹی مالکان کو فائدہ پہنچا، 10 ہائوسنگ سوسائٹیز میں غیر قانونی کاموں کی نشاندہی ہوئی، ایک سوسائٹی نے تو ڈیڑھ ارب روپے کی صرف خالی فائلیں فروخت کر دیں، زمین کی خریداری کیلئے ایک ارب روپیہ غریب شخص کے نام پر منتقل ہوا، متذکرہ سیاسی شخصیات نے سوسائٹیز کی پشت پناہی کی، وسیم تابش نے رشتہ داروں کے نام پر سوسائٹیز میں 12 پلاٹ لئے، یہ کرپشن کی صرف ایک کہانی ہے، اس طرح کی درجنوں کہانیاں ہمارے ملک میں موجود ہیں۔
ہمارے ملک میں کرپشن کا طریقہ کار ہر سطح پر مختلف ہے، سرکاری ملازم محکمہ کے بجٹ کو خوردبرد اور رشوت لے کر کرپشن کے مرتکب ہوتے ہیں تو صنعتکار بجلی چوری کر کے اور ٹیکس بچا کر اس کا حصہ بنتے ہیں، جاگیردار اور وڈیرے آبیانہ، مالیہ بچا کر اور بینکوں سے قرض لے کر ہڑپ کر کے اور غریب محنت کش کا حق مار کر کرپشن کرتے ہیں، کرپشن کی روک تھام والے سرکاری ادارے کرپشن کے فروغ کا باعث بنے ہوئے ہیں اس طرح جہاں جس کا دائو لگتا ہے وہ کرپشن کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ کرپشن کے ناسور نے ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے،

ملک کا ہر بچہ بڑا عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے، اور آئے روز ملک پر قرض بڑھتا جا رہا ہے، ملک کے بڑے بڑے ادارے غیر ملکی بینکوں کے مقروض ہیں، ہر حکمران نے اقتدار میں آ کر سب سے پہلا نعرہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کا لگایا، مگر وہ صرف نعرہ ہی رہا عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھی کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا ناسور قرار دیا اور کہا کہ یہ (کرپشن) ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے، وہ (عمران خان) سب سے پہلے ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور احتساب بلا امتیاز ہو گا

اب کپتان کی حکومت کو تین سال گزر چکے ہیں ملک میں احتساب بھی ہو رہا ہے لیکن اس کی زد میں اکثریت اپوزیشن جماعتوں کے سیاستدان، ان کے تعلق دار بیورو کریٹس اور شخصیات ہیں۔ تا ہم ان کے ساتھ پی ٹی آئی کی خال خال شخصیات سے بھی کرپشن، لوٹمار اور غیر قانونی اثاثے بنانے بابت پوچھ گچھ ہو رہی ہے، توجہ طلب بات یہ ہے کہ کپتان کی حکومت کے تین سال گزر گئے، مگر ابھی تک ماسوائے رنگ روڈ سکینڈل کے کسی محکمہ سے

کرپشن کی کوئی بڑی داستان کرنے والوں کی گرفتاری سامنے نہیں آئی، حالانکہ کپتان اپنی ہر تقریر میں کرپشن پر خوب لیکچر دیتے اور کہتے ہیں کہ کرپشن کو روکیں گے اور کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے؟ اسی تناظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئی بڑے سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور اہم شخصیات کو پابند سلاسل بھی کر رکھا ہے،

اور ان کے خلاف کیسز زیر سماعت ہیں، لیکن ان سے لوٹے ہوئے قومی خزانے کی رقم کی برآمدگی آٹے میں نمک کے برابر ہے کیونکہ پکڑے جانے والے بھی سیانے اور پرانے ’’پاپی‘‘ ہیں، وہ محنت اور حکمت سے کرپشن کر کے کمائی گئی رقم حکومت کو واپس کرنے کی بجائے چند ماہ یا سال جیل بھگتنے کو ترجیح دیتے نظر آ رہے ہیں۔ کپتان ان سے کس طرح لوٹی ہوئی رقم برآمد کر کے قومی خزانہ بھریں گے، اس بارے کپتان ہی جانتے ہیں۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہورہی تھی ملک میں کینسر کی طرح کرپشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کی توکپتان جی آپ بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر کے ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا عزم لے کر اقتدار میں آئے تھے اور آپ کا نعرہ تھا کہ احتساب بلا امتیاز ہو گا اور کوئی کرپٹ شخص جو قومی دولت لوٹنے کا مرتکب ہوا کو قانون کی گرفت میں لایا جائے گا، تو کپتان جی عرض ہے کہ احتساب سب کا کریں

، لیکن یہ بلا امتیاز ہونا چاہئے، اور ایسی پالیسی مرتب کریں کہ کرپٹ عناصر سے لوٹی ہوئی رقوم برآمد ہوں، ورنہ تو پکڑے جانے والے چور، لٹیرے اور کرپشن کے مرتکب، جیلوں میں پڑے رہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ وہ تو جیلوں اور سرکار پر بوجھ ہیں، کیونکہ اس طرح تو وہ سرکاری خزانے اور سرکار کے خرچ پر “پل” رہے ہیں کپتان جی آپ کو بچ، بچا، سوچ، سنبھل کر اس بارے قدم اٹھانا ہو گا؟ رنگ روڈ سکینڈل میں ملوث بڑے بیورو کریٹس کی گرفتاری کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے خوش آئند خبر ہے، لیکن اس طرح کی کرپشن کی بڑی بڑی داستانیں

ملک کے ہر سرکاری دفتر میں فائلوں میں بند پڑی ہیں، جنہیں نکلوا کر اگر انکوائریاں شروع کروائی جائیں تویقین سے کہا جا سکتا ہے کہ رنگ روڈ سکینڈل سے بڑی رقم کے فراڈ سامنے آئیں گے، کپتان جی آپ کو اپنی کابینہ اور اپنے ارد گرد ساتھیوں پر بھی کڑی نظر رکھنا ہو گی کیونکہ ان پر بھی اپوزیشن انگلیاں اٹھا رہی ہے، آپ کو کرپشن زدہ عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہو گا تب یہ ملک ترقی کرے گا اور آپ اور قوم کا ملک ریاست مدینہ بننے کا خواب پورا ہو گا۔ کپتان جی اگر ایسا نہ کر پائے تو تاریخ میں آپ کا نام بھی ماضی کے سیاستدانوں کی طرح کا لکھا جائے گا

جو ملک سے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگاتے رہے اور اب خود کرپشن زدہ کہلا رہے ہیں۔ کپتان جی رنگ روڈ سکینڈل میں جس طرح بیورو کریٹس کو پکڑا گیا ہے اس طرح سیاستدانوں کی انکوائری بھی فوری طور پر مکمل کروائی جائے اور اگر وہ قصور وار ہوں تو انہیں بھی گرفتار کر کے نشان عبرت بنا دیا جائے، تاکہ ملک میں یہ تاثر زائل ہو کہ احتساب صرف اپوزیشن کا ہو رہا ہے، حکومت کا نہیں؟ اس لئے آپ کو رنگ روڈ سکینڈل کی انکوائری پر خود نظر رکھنا ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں