قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کرنے کی سزا بھی، عبرت ناک ہوا کرتی ہے" 170

فتوے اور تقوے کا فرق

فتوے اور تقوے کا فرق

ایک وقت تھا ہمارے اسلاف تقوہ اختیار کرتے ہوئے ذرا ذرا سے ذاتی عمل پر بھی کتنے خوف خدا رکھتے تھے اورآج عام مسلمان تو کجا، بڑے بڑے علماء کرام بھی اپنے ان مدارس میں جہاں دعوت اسلام کے شہسوار تیار کئے جاتے ہیں، وہاں کے مصارف کے لئےجانتے بوجھتے نہ صرف ان امراء کا چندہ لینے سے بھی گریز نہیں کرتے جن کے حرام حلال ہر طرح کے روزگار ہیں بلکہ اپنے اثر رسوخ سے انہی امراء کو قوم و ملت کے سروں پر حکمرانی کرنے کے مواقع فراہم کیا کرتے ہیں

ابن بھٹکلی

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔”یرکا” آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے ۔۔

پھر آپ نے فرمایا “رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ اٹھ میل جانا اور اٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے؟ چھوڑو یرکا۔۔۔۔۔اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی”غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے
تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔غلام کہتے ہیں جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں عصر انکی وہیں ہوجائے گی۔غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا..
عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے ؟؟وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا مچھلی کا خریدا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا اور گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور کہیں حضرت عمر فاروق دیکھ نا لیں

غلام کہتا ہے کے کہ گھوڑے کا پسینہ تو خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا کہ گھوڑا کہیں سفر پہ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ حضرت عمرؓ فاروق دیکھ نہ لیں ۔۔
پھر میں جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے جلدی سے غسل کرایا اور اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔۔ (جب ہماری خواہشات ہوتی ہیں تو کیا حال ہوتا ہے لیکن یہ خواہش پوری کر کے ڈر رہے ہیں کیونکہ ضمیر زندہ ہے)
فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروق آئے میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑھی تھی۔

گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہےاور بس تھوڑی دیر میں مچھلی پکا کے پیش کرتا ہوں۔کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو *جناب عمرفاروق اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا، اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا پھر ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا تو دھو دیا لیکن کانوں کےپیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔اور یہاں تو پانی ڈالنا بھول گیا۔*
*حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے “اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے کوئی شک نہیں ہےاور میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں ہوں، کوئی پرہیز گار بھی نہیں ہوں ،میں تو دعائیں مانگتا ہوں اے اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف فرما دے۔۔میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے

فرمانے لگے یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ یا اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل کا سفر طے کرایا اے اللہ میں جانور تھا، بےزبان تھا 16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا وجود کا کمزور آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا؟”*
*یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا آج رویا میں تڑپ اٹھا کے حضور یہ والی سوچ (یہاں تولوگ اپنے ملازم کو نیچا دکھا کر اپنا افسر ہونا ظاہر کرتے ہیں) غلام رونے لگا حضرت عمرؓ فاروق کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال دے اور یہ جو مچھلی لے کے آئے ہو اسے مدینے کے غریب گھروں میں تقسیم کر دو اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کے تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں۔“*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں