بول کہ لب آزاد ہیں تیرے 228

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

تحریر :کومل شہزادی

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

دہقاں تو مرکھپ گیا اب کس کو جگاؤں

کیا اقبال کی شاعری میں جس غفلت کی نیند سے اٹھانے کا جذبہ سرشار ہے کیا آج کا معاشرہ غفلت میں دھنستا جارہا ہے یا جاگ رہا ہے۔اقبال بھی شرمندہ ہوں گے جو حادثات اقبال کے دیس میں رونما ہو رہے ہیں۔یقیناً اسے سْن کر مملکتِ پاکستان کا تصور پیش کرنے والے مفکر مرحوم علامہ اقبال اور اس مملکت کے وجود کو عملی جامہ پہنانے والی صدا بہار شخصیت قائداعظم کی روح بھی کانپ اْٹھی ہو گی کہ میرے مولا اس دیس کو بنانے کی کوشش ہم نے کن کیلئے کی۔ بقول خلیل جبران:

افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو جس کا فلسفی مداری ہو جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے سے کرےاور رخصت گالم گلوچ سے اور وہی ڈھول تاشے ایک نئے حاکم کے لیے بجانا شروع کر دے. افسوس اس قوم پر جس کے مدبر برسوں کے بوجھ تک دب گئے ہوں اور جس کے سورما ابھی تک پنگھوڑے میں ہوں. افسوس اس قوم پر جس کے رہنما جھوٹے ہوں اور دانا خاموش. افسوس، صد افسوس ان لوگوں کی قوم پر جو اپنے حقوق کو غصب ہونے دیتی ہے.قلم وہ واحد ہتھیار ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔انسان کے پاس زبان ہی وہ آلہ ہے

جس کی مدد سے وہ اپنے افکار دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ملک بھر میں گھریلو تشدد، جنسی زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے المیہ یہ ہے کہ یہ صرف خواتین تک محدود نہیں جنسی زیادتی،تشددکے واقعات میں کمسن بچیاں بچے اور خواتین شامل ہیں کہنے کو ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں لیکن ہر دوسرے دن ایسے واقعات سنتے اوردرندوں کو کھلے عام کسی اور معصوم کلی یا کسی گھر کی عزت کو پامال کرنے کے لیے چھوڑ دینگے۔خواتین کے ساتھ ہراسگی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں۔ لوگ بدنامی کے خوف سے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں جس سے جنسی جرائم کے عادی مجرمان کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں ۔

تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ آئے روز ہمارےپاکستان میں پہ در پہ رونما ہونیوالے واقعات معاشرے میں بے چینی پیدا کررہے ہیں ۔معاشرے میں ایک گھٹن پیداکردی ہے۔آج بھی ایسی بہت سی معصوم و پاکیزہ ،باپردہ خواتین ہیں جو نوکری کے لیے ضرورت کے تحت اگر باہر نکلیں تو گھٹیا ہوس کے پجاری ایسی خواتین کو بھی نہیں بخشتے۔نوکری کے جھانسے سے عورتوں کو ہراساں کرنا یا کسی اور معاملات میں ہراساں کرنا ۔ایسے آئے دن بہت سی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں ایسے گھٹیا مردوں کے نوکری و شادی وغیرہ کے جھانسے میں آکر اپنی عزت گنوا بیٹھتیں ہیں۔ایسی وہ خواتین ہیں

جو معصوم اور ناسمجھ اور معاشرے میں ہونے والے واقعات سے بے خبر ہوتی ہیں۔ایسی عورتوں کو اپنے حق پر بولنا بہت ضروری ہوگیا ہے جب تک آزادی سے بولیں گی نہیں معاشرے میں ایسے درندوں کی پیداوار مزید بڑھے گی۔ایسے مرد طبقے نے اسلامی معاشرے کو بدبودار کردیا ہے۔جدھر آپ کو اکیلے نکلتے بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔خواتین اپنے حق پر بولنا سیکھیں اگر آپ کو شادی وغیرہ کے جھانسے میں کوئی غلط تعلق قائم کرنے کی کوشش کرے تو پہلی بات آپ بلاک ،سوشل میڈیا، سائبر کرائم رپورٹ اور بہت سے ذرائع ہیں جن سے بول سکتے ہیں۔
420 اور 376 کا مقدمہ درج کروا کر ایسے حبیثوں کو اُن کے انجام تک پہنچائیں۔تاکہ معاشرہ ایسے لوگوں سے صاف ہو۔مردوں کی صورت میں درندے ،عورتوں کے گلے کاٹنے والے وحشی،ناجانے کس کس انسانی شکل میں وحشی بھیڑیے اقبال کے دیس میں موجود ہیں ۔المختصر، ایسے مرداپنی بہنوں وبیٹیوں کے لیے شیر ہیں تو دوسروں کی بہنوں وبیٹیوں کے لیے کتے نہ بنیں۔

میرے نزدیک جو انسانیت سے گری ہوئی حرکات کرتے ہیں یا عورت کو محض جسم سمجھتے ہیں یا جنسی تسکین کا ذریعہ تو وہ پہلی بات مرد ہی نہیں ہے ۔عورت بھی انسان ہے اور اُسے جسم تک محدود کردینا ایسے مرد درست معنوں میں مرد نہیں بلکہ درندے ہیں۔اُن والدین کے لیے خدارا اپنی معصوم بچیاں جو ابھی ناسمجھ ہیں جو ایسے درندوں کے جال میں پھنس جاتی ہیں ۔ایسے درندوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی بچیوں پر دھیان دیں تاکہ راستہ غلط چننے کی بجائے درست پر چل سکیں۔اگر سوشل میڈیا کا استعمال آپ کی بچیاں کرتی ہیں تو اُن کو اتنا سمجھائیں کہ کسی اجنبی سے بات نا کریں

کیونکہ انسانوں کی شکل میں جگہ جگہ جنسی درندیں گھوم رہے ہیں۔جو کم سن اور معصوم بچیوں کو اپنے جال اور ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے طرح طرح کے میٹھے الفاظ اور سبز باغ دکھا کر اُن کو متاثر کرتے ہیں اور بچیاں نادان بے وقوف بن کے ایسے جنسی درندوں کے ہتھے چڑ ھ جاتی ہیں۔اجنبی غیر مرد پر بھروسہ نا کریں وہ چاہے الفاظ کا استعمال سونے کے پانی سے ملاکر بھی کرے۔معاشرے میں جگہ جگہ جنسی بھیڑیے ہیں اپنی بچیوں کو بچائیں۔پتہ نہیں زینب کی طرح کی روز معصوم کلیاں ایسے درندوں کی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں۔ایسے معصوم پھول جس معاشرے میں محفوظ نہ ہوں اُدھر بچیاں اور عورتیں بھی کسی طرح محفوظ نہیں رہ سکتیں۔جس طرح شیر نوچتا ہے بھوک کی صورت میں انسانوں کو اسی طرح جنسی درندے اپنی ہوس کے لیے جنسی بھوکوں کی طرح منڈلاتے پھرتے ہیں۔مدرسے یا ٹیوشن اگر کوئی استاد پڑھاتا ہے تو وہ دیکھ کر اور اپنی نگرانی میں اپنی بچیوں کو پڑھوائیں۔مرد کی شدید جنسی خواہش نے ہر عورت کو اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیا ہے کہ
“وہ خوبصورت ہے”۔اس جملے سے اپنی بچیوں کو محفوظ رکھیں۔مرد وہیں ہیں جو اللہ پاک نے حلال رشتوں کی صورت میں آپ کو دیے ہیں باقی محض آپ کو کھلونا سمجھتے ہیں،عزت نہیں۔یہ خاص طور پر اُن بچیوں اور میری بہنوں کے لیے کہ جنسی درندے انسانوں کی شکل میں جگہ جگہ نوچنے کے لیے بیٹھے ہیں۔اپنے آپ کی حفاظت کریں اور اپنے اور اپنی بچیوں کو محفوظ رکھیں۔کسی غیر مرد کے بھروسے اپنی بچیوں کو نا چھوڑیں ۔بچیوں کے معاملات میں کسی بھی غیر مرد ذات پر بھروسہ نہ کریں۔چاہے وہ استاد ہے۔مولوی ہے۔سوشل میڈیا پر ماجود انسان یا کوئی اور ہے۔

کسی پر بھی اعتماد نہ کریں۔کیونکہ مسلم معاشرے میں پاک مرد بہت کم اور جنسی درندے زیادہ ہیں جو ہر وقت شکار کے متلاشی ہوتے ہیں پھر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی معصوم پھول ہے یا کوئی اور ہے۔”مرد ہوس کا پجاری” یہ فقط اُن کے لیے ہے جو مرد ایسی حرکات کرتے ہیں اگر کل کو ان کی بیٹیوں اور بہنوں کو بھی اسی نگاہ سے دیکھا جائے جیسا وہ دوسروں کی عورتوں کو دیکھتے ہیں تو ہوس زدہ مرد کو کچھ احساس ہو ۔معاشرے میں باحیا اور باکردار عورت کو بھی جنسی درندے ہوس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایسے مرد نہیں بلکہ بھیڑے ہوتے ہیں۔والدین سے تلقین اپنی بچیوں کو جنسی درندوں سے بچائیں

۔میری ایک استاد کہتیں تھیں کہ پڑھا لکھا طبقہ جتنی بڑی سیٹوں پر بیٹھا ہے جتنے یہ گھٹیا ہوتے ہیں اور کوئی نہیں ہوسکتا۔کبھی کسی پر بھروسہ نہ کریں جدھر بھی کام کے لیے ایسے لوگوں کے پاس جانا پڑے اپنے گھر کے کسی محرم کے ساتھ جائیں۔اتنے سال گزر گے یہ بات ذہن نشین کر لی۔لیکن تب ان باتوں کی سمجھ نہیں تھی آئی۔جیسے آپ عملی زندگی میں شامل ہوتے ہیں تو آپ کا پالا ایسے لوگوں سے پڑتا ہے تو خود ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ دنیا میں ہر رنگ کے لوگ موجود ہیں۔جن میں گھٹیا قسم میں اول فہرست ہیں۔اگر میری بات کسی کے بھی دل میں اتر جائے اور وہ اس پر عمل کرے تو اُمید ہے میرا یہ مختصر لکھنے کا حق ادا ہوگیا۔اللہ پاک ایسی خواتین جو پاکباز ہیں اُنہیں گندی سوچ ،گندی نظروں اور ایسے لوگوں سے ان کی حفاظت فرمائے ۔آمین یا رب العالمین بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، بول زباں اب تک تیری ہے، تیرا ستواں جسم ہے تیرا، بول کہ جاں اب تک تیری ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں