بنیادی انسانی حقوق کشمیر میں دستک دینے سے کیوں گریزاں ہیں؟ 168

بنیادی انسانی حقوق کشمیر میں دستک دینے سے کیوں گریزاں ہیں؟

بنیادی انسانی حقوق کشمیر میں دستک دینے سے کیوں گریزاں ہیں؟

تحریر : سید محمد احسن
انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ
تمام افراد کو جبری گمشدگی سے تحفظ کے بارے میں اعلامیہ ، جس کا اعلان جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر 1992 کی اپنی قرارداد 47/133 میں کیا ، اور جبری گمشدگی سے تمام افراد کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی کنونشن کی توثیق کو فروغ دینے کہ لیئے دنیا بھر میں ہر سال 30 اگست جبری گمشدگیوں کے بین الاقوامی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
لاپتہ ہونے اور قانونی تحفظ نہ ملنے پر ، جبری گمشدگیوں کے متاثرین دراصل اپنے تمام حقوق کھو دیتے ہیں اور اغوا کار کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔ لاپتہ شخص کے کچھ انسانی حقوق جن کی یقینی طور پر خلاف ورزی ہو تی ہے وہ ہیں:
* قانون کے سامنے فرد کی حیثیت سے پہچاننے کا حق؛
* شخص کی آزادی اور حفاظت کا حق
* تشدد اور دیگر ظالمانہ ، غیر انسانی ، یا ہتک آمیز سلوک یا سزا کا نشانہ نہ بننے کا حق؛
* زندگی کا حق ، جب کوئی لاپتہ شخص مارا جائے۔
* شناخت کا حق؛
* منصفانہ مقدمے کی سماعت اور عدالتی ضمانت کا حق۔
* معاوضہ سمیت مؤثر علاج کا حق۔
* لاپتہ افراد کے بارے میں حقیقت جاننے کا حق۔
اس اعلان کو 29 سال ہوچکے ہیں ، لیکن ابھی تک کشمیر میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ پتہ نہیں یہ حقوق جموں و کشمیر میں دستک دینے سے کیوں گریزاں ہیں؟
حال ہی میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بھارت اور پاکستان پر کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اگر کشمیر پر انسانی حقوق کی کوئی بھی رپورٹ اٹھا کر پڑھی جائے تو اس صورت میں نتیجہ یہ ہی نکلے گا کہ  بھارت  کشمیر کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پوری دنیا اور اقوام متحدہ بھی اس معاملے پر خاموش تماشائی ہے۔ کشمیر میں کوئی بھی شہری جو بھارت  کے بیانیئے سے انحراف کرکے اپنی رائے دینے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ڈرایا جاتا ہے یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یا پھر وہ شخص لاپتہ ہو جاتا ہے۔  علاقے میں ایک ہائبرڈ سسٹم چلایا جا رہا ہے اور سارا نظام کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ اس خطے کے لوگ آزادانہ طور پر سوچ نہ سکیں۔ آزادی پسندوں پر تشدد اور ان کا لاپتہ ہونا عام بات ہے۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کب کسی کو مار دیا جائے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کشمیر کے ہر علاقے کے لوگ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ کوئی بھی محفوظ نہیں ، خواہ وہ جموں و کشمیر کے عام لوگ ہوں یا کشمیری پنڈت ، خواتین یا بچے یا خانہ بدوش۔ ہر کوئی ایک ہی لائن میں کھڑا ہے۔ ہر کسی کو بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح ہانکا جاتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ ان سب کے حقوق سلب  کرنے کی طاقت ایک ہی ہے۔ کیا کوئی بتائے گا کہ اس غریب محنت کش طبقے کا کیا قصور ہے؟ اور کیوں عالم انسان خصوصی طور پر اقوام متحدہ اس پر خاموش ہے؟ 
آج جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کے موقع پر  بین الاقوامی انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر لاپتہ افراد ، ان کے خاندان ، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں اور تمام عالمی طاقتوں اور خصوصًا انسانی حقوق کی تنظیموں سے پوچھتا ہوں کہ کیا کشمیر میں رہنے والے انسان نہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں