جھاڑو اور جہاز 161

جھاڑو اور جہاز

جھاڑو اور جہاز

تحریر:نوید ملک

بچپن کسے اچھا نہیں لگا، ہر امیر اور غریب کو اللہ تعالیٰ نے بچپنے کی دولت سے نوازا ہے۔امیر کا بچہ بھی بچپنے سے اتنا ہی لطف اندوز ہو سکتا ہے جتنا غریب کا بچہ۔یہ دولت سب میں برابر تقسیم ہوئی ہے۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے ہوتے تھے ہمیں جھاڑو بہت اچھا لگتا تھا۔ اچھا لگنے کی وجہ یہ تھی کہ اس جھاڑو نے ہمیں دنیا بھر کی سیر کروائی تھی۔قوتِ متخیلہ کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم جھاڑو کو دونوں ٹانگوں میں پھنسا لیتے تھے اور پھر شوں شوں کرتے ہوئے صحن میں دوڑتے تھے۔ہمیں بالکل ایسا ہی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہم جہاز پر سوار ہیں اور کائنات کی وسعتیں ہم پر کھُل رہی ہیں۔

ہم جس چیز کو سوچتے ہیں اور پھر اپنے محسوسات کو اُس کے تابع کرتے ہیں تو اس کی تصویر بننا شروع ہو جاتی ہے اور پھر ذہن اُس تصویر سے لپٹ کر تمام فاصلے ختم کر دیتا ہے۔خالق اور مخلوق کے درمیان کے فاصلے بھی اسی طرح سے کم ہو سکتے ہیں اگر ہم اپنے محسوسات کو تصورِ خدا کے تابع کر لیں۔یہ ایک الگ موضوع ہے جب کہ میں ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں۔
میں چاہتا ہوں کہ نئی نسل جھاڑو سے نکل کر جہاز تک پہنچے اور کائنات کی وسعتوں تک رسائی حاصل کرے۔مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ آج کل ایک لفظ کی گونج ہر جگہ سنائی دیتی ہے اور وہ لفظ ہے ”وژن”۔وژن کیا ہے؟ مستقبل کی تصویر، ماضی کی روشنی میں حال کو سنوارنا اور مستقبل کو روشن کرنا، کچھ کرنے کی تڑپ۔میں ایک سرکاری ادارے میں کام کرتا تھا۔ایک اسسٹنٹ میری نظروں کی زد میں رہتا۔وہ زیادہ تر خاموش رہتا، کچھ سوچتا رہتا اور ہر وقت حاضری رجسٹر کھول کر کچی پنسل سے آڑی ترچھی لکیریں کھینچتا۔وہ سارا دن اسی طرح گزارتا اور پھر چھٹی کے وقت اپنا ٹفن ہاتھوں میں تھامے، مرجھایا سا سلام کر کے دروازے کو دھکیلتا۔مجھے محسوس ہوتا جیسے دروازے نے اسے دھکیلا ہو۔میں اسے دیکھ کر سوچا کرتا تھا کہ یہ کیسی زندگی ہے؟

کوئی منصوبہ نہیں، کوئی ارادہ نہیں، کوئی مشن نہیں، کوئی کوشش نہیں۔قصور اس کا نہیں تھا۔قصور اُس تعلیمی نظام کا ہے جہاں سے گزر کر وہ کسی شعبے میں داخل ہوا ہے۔قصور ان نگاہوں کا ہے جن نے اس کی شخصیت میں چھپے گہر نہیں تراشے۔ہمارے بچوں میں سب کچھ ہے مگر وژن نہیں۔ہم مستقل کی تصویریں بنا سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے بہت سے کیمرے عطا کیے ہیں مگر وہ کیمرے پڑے پڑے ناکارہ ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور پیسہ کمانے کی دوڑ میں انسان نے ان کیمروں کو کچل دیا ہے۔الاعلیٰ، آیت14 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”بے شک وہ کامیاب ہوا جو پاک ہو گیا”ہمارا کامیابی کا تصور اہلِ مغرب سے بالکل مختلف ہے۔ہماری کامیابی صرف دنیاوی کامیابی تک محدود نہیں بلکہ اخروی زندگی کی کامرانی بھی ہے۔دین و دنیا کی فلاح کے علاوہ بھی اگر کسی سے ”وژن ”کے بارے میں پوچھا جائے تو تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔بچے علم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ اچھی نوکری مل جائے، اچھی نوکری ملے گی؎

تو اچھی جگہ شادی کرنے کا موقع ملے گا، زندگی شان و شوکت کے ساتھ گزرے گی اور بڑھاپے میں جب اولاد کی بے اعتنائی دیکھیں گے تو نئی نسل کو تنقید کا نشانہ یہ کہہ کر بنائیں گے”ہمارا وقت بہت اچھا تھا”اور پھر تنہائی اور ذلت کا سامنا کرتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں حساب کتاب دینے چلے جائیں گے۔اپنی اولاد میں زندگی کا حقیقی تصور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
الرعد، آیت 26 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:-”دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کچھ نہیں مگر تھوڑیسیاسباب”ہمیں اپنے بچوں کے ذہن میں ” وژن” تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔وہ کائنات میں کیوں آئے، انھیں کیا کرنا ہے اور پھر ان کا آخری مقام کیا ہوگا۔نسلِ نو میں اضطراب پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ایسا اضطراب جو انھیں مرنے دَم تک کچھ کرنے کی آرزو میں گرمائے رکھے۔وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ قیمتی ترین تحفہ (زندگی) کا ہر لمحہ اپنے تخیل کے کیمرے آن کر کے گزاریں اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان کے ہاتھوں میں نوکری کا جھاڑو، شادی کا جھاڑو، کاروبار کا جھاڑو، سیاست کا جھاڑو رہ جائے گا

اور وہ جھاڑو پھیرتے پھیرتے دنیا سے چلے جائیں گے۔ہر دن مساجد میں کسی نہ کسی کی فوتگی کا اعلان ہوتا ہے، ان کی فوتگی کا بھی اعلان ہو گا۔خواتین کہیں گی کہ فلاں عورت کا شوہر فوت ہو گیا ہے، بچے کہیں گے کہ فلاں دوست کا والد فوت ہو گیا ہے، لوگ کہیں گے کہ فلاں شخص کا ہمسایہ فوت ہو گیا، اس کے علاوہ اس کی کوئی پہچان نہیں ہو گی۔اگر زندگی میں اُس نے اپنی ذات کو پہچان کر جہاز تک پہنچنے کی کوشش کی ہوتی تھی تو فضائیں اس کے ترانے گاتیں۔آخر میں ایک غزل سے کچھ منتخب اشعار

ہر دِیا رات کے چھانے سے بڑا ہوتا ہے
دل تو نقصان اٹھانے سے بڑا ہوتا ہے

ننھے کاندھوں پہ کتابوں کا نہ یوں بوجھ بڑھا
بستہ خوابوں کو جگانے سے بڑا ہوتا ہے

عشق میں کھُل کے جنوں اپنا لٹاؤ تم بھی
ایسا تہوار منانے سے بڑا ہوتا ہے

میرے بیٹے نے کہا ڈر کے سمندر سے آج
یہ تو دریاؤں کو کھانے سے بڑا ہوتا ہے
جو پرندوں کی اڑانوں پہ کرے حشر بپا
گھونسلہ ایسے ٹھکانے سے بڑا ہوتا ہے

معتبر شخص بھلاتا نہیں محسن اپنا
اور استاد سکھانے سے بڑا ہوتا ہے
زیست وہ دشت ہے جو لُو کے بکھرنے کے بعد
تشنگی اپنی بڑھانے سے بڑا ہوتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں