Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

شاہینوں کا شہر اور فضائیہ کا ہیرو ایم ایم عالم

شاہینوں کا شہر اور فضائیہ کا ہیرو ایم ایم عالم

شاہینوں کا شہر اور فضائیہ کا ہیرو ایم ایم عالم

شاہینوں کا شہر اور فضائیہ کا ہیرو ایم ایم عالم

تحریر: محمد اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100

1965ء کی جنگ سے اب تک پاک بھارت جھڑپوں میں کئی پاکستانی ہیروز نے نمایاں کردار ادا کر کے دنیا میں ایسی تاریخیں رقم کی ہیں جسے سن کر پاکستان کا دشمن بھارت اب بھی دہل جاتا ہے، انہی پاکستانی ہیروز میں ایم ایم عالم بھی شامل ہیں، جنہوں نے دو منٹ سے کم وقت میں پانچ بھارتی طیاروں کو زمین بوس کر کے دنیا میں عالمی ریکارڈ قائم کیا، اس حوالے سے ماہر تعلیم، دانشور و محقق اور قلم کار ہارون الرشید تبسم بتاتے ہیں کہ سرگودھا1903ء میں وجود میں آیا، یہ خطہ وڈیروں ، جاگیرداروں ، سیاستدانوں ، نیزہ بازوں ، گھڑسواروں اور مالٹوں کی وجہ سے مقبول تھا۔ بہت سی سیاسی اور مذہبی تحریکوں نے سرگودھا سے سر اُٹھایا۔ تحریکِ ختمِ نبوت ﷺ اور تحریکِ نفاذِ اسلام میں بھی اس شہر کا خاص حصہ ہے

۔۱۹۶۵ء کی جنگ سے پہلے اسے عالمی شہرت حاصل نہ تھی۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے 6ستمبر 1965ء بروز پیر ہماری سرحدوں کا رخ کیا۔ یوں تو پورا ملک اور سرحدوں پر بزدل دشمن نے بغیر کسی اعلان کے جارحیت کا مظاہرہ کیالیکن فضائی حملوں کے لیے اُس نے سرگودھا کو نشانے پر رکھا ۔ اس اچانک حملے کا اہلِ وطن نے جرأت و بہادری سے مقابلہ کیا۔ شمع رسالتﷺ کے پروانے دشمن پر قہر الٰہی بن کر ٹوٹے۔ اُن کے جذبہ قوت ایمانی نے دشمن کے تمام عزائم خاک میں ملا دئیے۔ اُن کی آتش نوائی نے خرمن باطل کو جلا ڈالا۔ پاکستانی مسلح افواج نے بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے سے کئی گنا دشمن کو نیست و نابود کر کے میدان بدر کی یاد تازہ کر دی۔
چھ ستمبر کی صبح بھارت کے دو طیارے نیچی پرواز کرتے ہوئے سرگودہا کے ہوائی اڈے کی طرف بڑھے۔ اس وقت سرگودہا میں زندگی معمول پرتھی۔ لوگ تلاوت قرآن حکیم میں محو تھے۔ کچھ نمازی مساجد سے آ رہے تھے۔ بچے بادل نخواستہ بستروں سے باہر آ رہے تھے۔ خواتین ناشتے کی تیاری میں مصروف تھیں۔ ناشتے کی چیزوں کی خرید و فروخت حسب معمول جاری تھی کہ اچانک خطرے کا سائرن بجا اور آسمان گھن گرج کے ساتھ سرخ گولوں سے آتش فشاں نظرآنے لگا۔ چشم زدن میں یہ تبدیلی اہل سرگودہا کے لیے حیران کن تھا۔ اس موقع پر بہت سے لطائف بھی سننے میں آئے۔ ہر شخص اپنی معلومات کے مطابق آزادی رائے کا اظہار کر رہا تھا۔

ایک صاحب بولے ’’ارے بھائی جہاز کا اسلحہ گر رہا ہے‘‘ ایک بڑھیا نے کہا ’’ یہ تو حضرت اسرافیل نے صور پھونکا ہے‘‘ بچے اسے آتش بازی سمجھ رہے تھے اور خواتین حسب معمول افواہوں کے لیے جواز ڈھونڈ رہی تھیں لیکن جب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے قوم سے خطاب کیا تب اہل سرگودہا کو پتہ چلا کہ بھارت نے پاکستان پرحملہ کر دیا ۔ دوسرے شہروں کی طرح یہاں اتحاد کا غیر معمولی جذبہ دیکھنے میں آیا۔ ایک ہی دن میں حفاظتی خندقیں کھود دی گئیں۔ دفاعی فنڈ کے ادارے قائم ہو گئے۔ ہر شخص کا ذاتی مفاد ملکی مفاد کے لیے وقف ہو گیا

اور پورا شہر ایک مرکز پر آ کھڑا ہوا۔7ستمبر1965ء بروز منگل کا سورج بادلوں سے چھن چھن کر خلا کے رخسار کو چھوتا ہوا ابھی اہل سرگودہا تک نہ پہنچا تھا کہ بھارت کے چھ طیارے فضا میں نمودار ہوئے۔ اُن کا رخ پاکستان کے ہوائی اڈوں کی طرف تھا۔ اس مرتبہ توپوں کی آوازیں سنائی نہ دیں بلکہ ان چھ طیاروں کے پیچھے پاکستانی فائٹر 104ایف کی آواز فضا میں گونجی اور پھر ایک دھماکے کے ساتھ ایک بھارتی طیارہ زمین کی طرف کٹی پتنگ کی طرح آتا ہوا دکھائی دیا اور چند ہی لمحے بعد دوسرا طیارہ بھی زمین پرآ گرا۔ دو طیاروں کو پاکستانی توپوں نے اپنے پیٹ کا ایندھن بنایا اور اسی دن سرگودہا کی فضا میں ایک شاہین صفت ہوا

باز ایم ایم عالم (محمد محمود عالم) ایک سیبر طیارہ لیے نمودار ہوا جس نے دو منٹ سے بھی کم وقت میں بھارت کے پانچ طیاروں کا شکار کر کے دنیا میں عالمی ریکارڈ قائم کیا۔مجموعی طور پر ایم ایم عالم نے بھارت کے ۹طیارے مار گرا کر فضائی جنگ کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا۔ انہیں ائیر فورس اور عوامی حلقوں میں لٹل ڈریگن(Little Dragon) کہا جاتاہے۔ ایم ایم عالم کے ساتھ دوسرے ہوا بازوں نے بھارت کے یکے بعد دیگرے طیارے مار گرا کر سرگودھا کی فضا کو بھارتی طیاروں کا قبرستان بنا دیا۔

اُسی روز خبر نامہ میں سرگودھا کو شاہینوں کا شہرکہہ کر پکارا گیا۔17 روزہ جنگ میں بھارت نے بار بار سرگودھا کا رخ کیا اور ہر بار اُسے ہزیمت اُٹھانا پڑی۔ ہمارے شاہین اُن پر جرأت سے جھپٹتے رہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ناصر کاظمی نے جونہی سرگودھا کے لیے ’’ زندہ دلوں کا گہوارہ سرگودھا میرا شہر ‘‘ نغمہ تحریر کیا تو اُسے عنایت حسین بھٹی نے بڑی محبت سے گایا۔ یہ نغمہ اہلِ سرگودھا کے دلوں کو گرماتا رہا اور وہ بھارت کا مقابلہ کرتے رہے۔اہل سرگودہا نے جس جوانمردی اور بہادری کا مظاہرہ کیا وہ قابل تحسین و قابل تقلید ہے۔ لغزش اور خوف و خطر کی کوئی مثال دوران جنگ دیکھنے میں نہیں آئی۔

شہر کا بچہ بچہ اپنے آپ کو ہوا باز تصور کرنے لگا۔ پاکستانی ہوا بازوں کی لازوال بہادری اور فنی مہارت کی وجہ سے بھارتی طیاروں کو دن کے وقت گزرنے کی جرات نہ ہوئی۔ بھارتی پائلٹ سرگودھا کی فضا سے اتنے خوفزدہ ہوئے جس طرح رات کی تاریکی میں انسان بھوت پریت کے خوف سے کانپتا ہے۔ جنگ کے اوائل میں ہی بھارتی فضائیہ کو گرانقدر نقصان اٹھانا پڑا اور اس کے بعد بھارتی فضائیہ کو دن کے وقت سرگودہا کی حدود میں داخل ہونے کی جرات نہ ہوئی اور باقی ماندہ دنوں میں بھارتی پائلٹ چاند نکلنے کے ساتھ سرگودہا پر حملہ کرتے اور منہ کی کھاتے اور کوئی طیارہ شہری آبادی کے قریب گرا لیاجاتا

تو اگلے روز جہاز کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑوں کا شہر بھر میں جلوس نکالا جاتا اور شہری فتح و کامرانی کے تازیانے بلند کرتے۔ حکومت نے اُن کی گراںقدر جرأت کے اعتراف میں اُنھیں ستارۂ جرأت سے نوازا۔ایم ایم عالم کے علاوہ سرگودہا کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس وقت کے فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز احمد بھٹی نے امرتسر ہوائی اڈے اور بھارت کے دوسرے مقامات پر ٹھیک ٹھاک نشانے لگائے اور ان کے کئی ریڈار تباہ کر دیے۔ اس طرح اہل سرگودہا کو فتح کے دوہرے اعزاز نصیب ہوئے۔

اہل سرگودہا کے اس غیر معمولی عزم و استقلال کے اعتراف میں حکومت نے سرگودہا کو ’’ہلال استقلال‘‘ عطا کیا۔ اس وقت کے گورنرمغربی پاکستان جنرل محمد موسیٰ نے 8مئی1967ء بروز پیر ایک بڑی تقریب میں پرچم ہلال استقلا ل لہرایا۔ ایک ٹال بوائے بم بھی عطاکیا جو باغِ جناح کے باہر نصب تھا ۔ پل کی تعمیر کی وجہ سے وہ بم دربدر گھومتا پھرتا رہا اُسے چک 47 شمالی یونیورسٹی روڈ کے آخری کونے پر نصب کیا گیا تھا لیکن آج کل وہ لاپتہ ہو چکا ہے، بہادری کی یہ نشانی گم کردینا انتظامیہ کی بے حسی ہے ۔ پرچمِ ہلال استقلال تبدیل کرنے کی تقریب پہلے میونسپل کارپوریشن میں ہوا کرتی تھی، اب اس تقریب کا اہتمام6 ستمبر یومِ دفاع کے موقع پر جناح ہال سرگودھا میں کیا جاتاہے۔ یہ عظیم الشان پرچم اب جناح ہال سرگودھا پر بڑی آب و تاب کے ساتھ لہراتا رہتاہے ۔ شہرِ استقلال کے باسی ہمیشہ مستعد اور جذبۂ حب الوطنی سے سرشار رہتے ہیں۔
سرگودھا کو عالمی سطح پر متعارف کروانے میں ہمارے شہباز، ہوا بازاور جاں باز ، ایم ایم عالم کا مرکزی کردار ہے۔ ایم ایم عالم6 جولائی1935ء کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ 1951ء میں سیکنڈری امتحان پاس کر کے1952ء میں پی اے ایف کالج میں داخل ہوئے ۔ 2/ اکتوبر1953ء کو کمیشن حاصل کیا ۔ انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے پاک فضائیہ میں تاریخی خدمات سر انجام دیں ۔اُنھوںنے دنیا بھر کی سپر طاقتوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ ہارون الرشید تبسم مزید بتاتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ ایم ایم عالم کو ملنے کی سعادت رکھتے ہیں،

وہ یومِ دفاع 1966ء کے موقع پر تقریب میں شریک ہوئے جس کا اہتمام ممتاز صحافی، شاعرو ادیب اور مدیر شیخ محمد انور گوئندی نے کیا تھا۔ ایم ایم عالم کے سٹینو گرافر صاحبزادہ شمشاد حسین شاہد کی وساطت سے اُن کی شخصی عظمت کا پتہ چلتا رہا۔ کراچی میں قیام کے دوران بھی اُن سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ ایم ایم عالم کے بھائی ایم شاہد عالم معاشیات کے پروفیسر رہے ۔ نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں تدریسی خدمات دیتے رہے ۔ اُن کے دوسرے بھائی سجاد عالم ماہرِ طبیعات تھے۔ ایم ایم عالم کم گو اور سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے۔بنگالی ہونے کی ناتے اُنھیں 1971ء کی جنگ میں اُڑان بھرنے کی اجازت نہ ملی۔ اُنھوںنے فضائیہ کے سربراہ انور شمیم پر تنقید کی جس کی وجہ سے اُنھیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ 1971ء کے بعد وہ گوشہ نشین ہو گئے۔

شہادت کی آرزو میں وہ افغانستان اور کشمیر تک رسائی کرتے رہے۔ اُنھوںنے ہمیشہ نئی رتوں کے خواب دیکھے۔ تیز و تند طوفانوں سے ٹکرانے کا عزم زندہ رکھتے رہے۔ جذبۂ حب الوطنی اُن کا اہم ترین طیارہ تھا۔ وہ خیالات میں خود کو اُڑتا دیکھتے تھے۔ اُن کی طبیعت میں تخلیقی آہنگ اور ایک وجدان موجود تھا۔ اُنھوںنے شادی رچانے کے بجائے خود کو ملک و قوم کے لیے وقف رکھا۔ مارچ 2013ء کو اُن کی مزاج پرسی کے لیے صاحبزادہ شمشاد حسین شاہد نے سی سی یو وارڈ ، کراچی ہاسپٹل پھول بھجوانے کا اہتمام کیا تو ایم ایم عالم نے کہا ’’ کیا سرگودھا کے لوگ مجھے اب بھی یاد کرتے ہیں؟‘‘ ہمارا جواب یہی تھا کہ اہلِ سرگودھا لفظی پیکر تراشنے کے بجائے اپنے محسنوں کو عملی طور پر یاد رکھتے ہیں۔ آخری ایام میںوہ تنہائی اور بیماری کا شکار رہے۔

اُن کی لاشعوری قوتوں میں ایک مجاہد سرگرمِ عمل رہا۔ وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر18 مارچ2013 ء بروز پیر عالم فانی سے عالمِ بالا پر واز کر گئے ۔ اُن کی نمازِ جنازہ پی اے ایف بیس مسرور میں ادا کی گئی۔اُن کے انتقال سے پاکستان ایک عالم شہرت یافتہ ہوا باز سے محروم ہو گیا۔ اُن کے انتقال پر ہماری قومی بے حسی کا روایتی مظاہرہ کیا گیا۔ بعد ازاں اپریل 2014ء کوحکومت پاکستان نے میانوالی ائیر بیس کا نام ’’ ایم ایم عالم ‘‘کے نام منسوب کیا۔لاہور میں گلبرک کے علاقہ کی ایک سڑک کا نام بھی ایم ایم عالم روڈ رکھا گیا۔

شاہینوں کے شہر سرگودھا میں سوہنی پورہ روڈ کو ائیر کموڈور محمد محمود عالم کا نام دیا گیا ہے۔ مرحوم کے سوگواروں میں تین بھائی اور ایک بہن ہیں۔ پاک فضائیہ کے ہیروز کے حوالے سے بھرپور معلومات فراہم کرنے پر مجھ سمیت پوری قوم ہارون الرشید تبسم کی ممنون ہے، جو ہمیشہ قومی ہیروز کے کردار کو ابھار کر اپنی نسل نو کو ان کے بارے میں آگاہ کر کے بتاتے رہتے ہیں کہ پاکستان کتنی قربانیوں کے حاصل ہوا اور ملک کے ہیروز نے کس طرح اس کے دفاع کیلئے جدوجہد کی۔

Exit mobile version