تعلیم اور تخلیقیت 167

تعلیم اور تخلیقیت

تعلیم اور تخلیقیت

تحریر:نوید ملک

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اردو کے استادِ محترم سے میں نے شہتوت کے سوٹے کھائے۔میرا جرم سن کر شاید آپ کو بھی حیرت ہو ۔استادِ محترم نے ایک سفر کی روداد لکھوائی اور رٹا لگانے کو کہا۔میں نے اس تحریر کو دیکھا بھی نہیں۔میں نے سوچا تھا کہ اپنی طرف سے لکھوں گا۔گرمیوں کی تعطیلات میں گلگت سے کشمیر اپنے ددھیال آنا جانا رہتا تھا۔جب استادِ محترم نے ٹیسٹ لیا تو میں نے خود سے ہی تمام مناظر اور باتیں لکھیں جن سے سفر کے دوران میرے تجربات کا دامن وسیع ہوا۔ان نے حکم عدولی کے جرم میں مرغا بنا کر اتنا پیٹا کہ سزا سوچ کر تکلیف آج بھی میرے بدن پر ابھر تی ہے اور میری پسلیاں بلکنے لگتی ہیں۔
کتابیں پڑھنا، لکھنا اور دوسروں تک پہنچانا بچپن ہی سے میرے پسندیدہ مشاغل تھے۔اردو لکھنے اور پڑھنے کے مسائل میرے قریب بھی نہیں آئے۔ کتابوں کی وہ خوشبو! اب بھی میرے اندر کہیں سمائی ہوئی ہے جس نے بچپن میں مجھے جکڑ رکھا تھا۔شعبہء تدریس سے منسلک ہونے کے بعد میری پہلی ترجیح یہ رہی کہ ہر بچے کی تخلیقی صلاحیت کی شناخت کی جائے اور اس کی آبیاری کی جائے مگر عجیب سی صورتِ حال سامنے آ رہی ہے۔موجودہ تعلیمی نظام میں اساتذہ بطور خاص یہ کوشش کرتے ہیں

کہ بچوں میں خود لکھنے کے شوق کو پروان چڑھایا جائے مگربچے رٹو طوطے بنے ہوئے ہیں۔ اردو اور انگریزی کی کلاس میں Creative Writing کے لیے بچوں کو وقت دیا جاتا ہے۔کچھ بچے تو شوق سے دیے ہوئے عملی کام کو پایہء تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور زیادہ تر بچے سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔بعض والدین خصوصی طور پر بچوں کو ایسے تعلیمی اداروں میں داخل کرتے ہیں جو نسلِ نو کو تخلیقی کاموں کی طرف راغب کرتے ہیں مگر بچیاسے بھی وبالِ جان سمجھتے ہیں۔
آپ کسی بھی بچے سے سوال کریں”آپ اسلامیات لازمی” اور ”اردو لازمی ” کیوں پڑھتے ہیں تو وہ جواب دیں گے
”اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں اور اردو ہماری قومی زبان ہے”
میرے ان سوالات کے جوابات آپ اپنے اندر تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
”کیا ہم بہترین قوم کی شکل میں ابھرے؟کیا ہم اچھے مسلمان بنے؟”
اگر آپ کا جواب ہاں میں ہو تو موجودہ سماجی منظر نامے پر غور ضرور کیجیے گا۔اردو کے ساتھ بھی ہم نے وہی کام کیا جو دینی تعلیم کے ساتھ کر رہے ہیں۔یعنی علم کو عملی زندگی میں بروئے کار نہیں لایا گیا۔قومی زبان کے ساتھ ساتھ بچوں کو ضرور بتایا کریں کہ لفظوں کی محبت انسان کو بڑی تخلیقات کے دروازے تک لے جا سکتی ہے۔اچھی اردو پڑھ کر اچھا شاعر، ادیب، کالم نگار، صحافی، ڈرامہ نگار، ناول نگار، افسانہ نگار بن سکتے ہیں۔ان اصناف میں محنت کر کے اچھی خاصی رقم بھی کمائی جا سکتی ہے۔

اردو سائنس ہے اورمصنف بھی تو سائنس دان ہوتا ہے جو خیالات، جذبات اور احساسات کے لیے نئے نئے سانچے ایجاد کرتا ہے۔حاصلاتِ تعلم سے بیگانگی نے بچوں کے سینوں سے ذوق و شوق کے چراغ گُل کر دیے ہیں اور وہ اسے صرف قومی زبان سمجھ کر برداشت کرتے ہیں۔بات صرف اردو کی کتاب کے حوالے سے نہیں، کوئی بھی کتاب ہو تعلیم صرف نمبر لینے کا نام نہیں، متعلم کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو اجاگر کرنے کا نام ہے۔تعلیم برائے تخلیقیت کو شعار بنایا جائے تو ہمارے معاشرے کو اچھے انسان، تخلیقات کار، سائنس دان، مفکر، اور علما میسر آ سکتے ہیں۔
الصافات، آیت 155 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
”پس کیا تم غور نہیں کرتے”
بچوں میں غور و فکر کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے انھیں تجسس میں ڈالنا چاہیے، یہ کام اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی ہے۔میری نجی تعلیمی اداروں اور سرکاری اداروں کے سربراہان سے گزارش بھی ہے کہ تدریسِ اردو کے لیے جس معلم کا انتخاب کریں وہ مصنف، شاعر یا ادیب بھی ہو تاکہ تخلیقیت کے بیج نسلِ نو کے اذہان میں بوئے جا سکیں اور ادب کی زمین پھر سیشاداب ہو سکے۔آخر میں ایک غزل

میں نے جو کچھ بھی درختوں سے کمایا دوں گا
خود جھلستے ہوئے ہر شخص کو سایا دوں گا
ویسے اِسکول کے ماحول سے محروم رہا
اک محبت نے مجھے جو بھی سکھایا دوں گا
وہ تو جگنو بھی نہیں دینے پہ مائل ابھی تک
میری مٹھی میں اگر تارا بھی آیا دوں گا
مجھ سے لے جاؤ مری زیست کا اک آدھ بھنور
لوٹ آئے تو سمندر کا بقایا دوں گا
کاش بچپن میں ہی یہ راز عیاں ہو جاتا
میں بدن میں بھی رہوں گا تو کرایا دوں گا
زندگی چاہیے میری توسوال ایسے نہ کر
یار اک بار تجھے میں نے بتایا دوں گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں