شہید رائے احمد خان کھرل کو کیوں بھلا دیا گیا
تحریر :کالم نگار ،ساجد نذیر کھرل
1857ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں کئی ہیرو ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے شجاعت اور جرأت کی نئی داستانیں رقم کیں لیکن وسیب کے کھرل خاندان سے ایک ایسا ہیرو سامنے آیا جس کی دلیری کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ اس ہیرو کانام شہید رائے احمد خان کھرل ہے ۔1776 رائے نتھو خان کھرل کے گھر پیدا ہوئے۔ 80 سال کی عمر میں جام شہادت نصیب ہوئی ۔1857 میں انگریزوں کے مخالف مجاہدین کی قیادت کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا۔21 ستمبر 1857 روزے میں نماز عصر پڑھتے ہوئے شہادت پائی۔
آپ کے سرتن سے جدا کرکے گوگیرہ جیل کے دروازے پرلٹکا دیا گیا۔داد فتیانہ نے شہید رائے احمد خان کھرل کے قتل کا بدلہ لیتے ہوئے برکلے کو قتل کیا پھر داد فتیانہ کو اس جرم میں پھانسی دے دی گئی ۔شہید رائے احمد خان کھرل نے ضلع گوگیرہ (ساہیوال) میں1857میں انگریز افواج سے باقاعدہ گوریلا جنگ کے اس موقع پر دریائے راوی ،چناب اور ستلج کے کنارے آباد بہادر مقامی لوگ مجاہدین تحریک آزادی کے خون کا بدلہ چکانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اور انگریزوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔
کیمپوں پر چھپ کر حملے کرتے حتیٰ کہ مجاہدین نے جولائی سے اکتوبر کے اس دورانیہ میں ایک قسم کی آزاد اور خودمختار حکومت قائم کی اور سرکار کو لگام دینا بند کر دیا۔لیکن انگریز کے وفاداروں نے حریت پسندوں کی تمام کاوشوں پر پانی پھیر دیا۔ انگریزوں سے انعامات کے لالچ میں شہداء کی قربانیوں کو فراموش کردیا گیا ۔مجاہدین کی بستیاں نذر آتش کی گئیں۔ لاکھوں مویشی ضبط کیئے گئے ،بیسیوں کو کالا پانی جلا وطن کیا گیا۔سینکڑوں لوگوں کو تختہ دار پرلٹکائے گئے کروڑوں روپے کی جائیدادیں بھی ضبط کی گئیں۔ جاسوسوں اور وفاداروں کو انعام و اکرام سے نوازا سے گیا ۔تاریخ کے اوراق کے مطابق 17 ستمبر1857 کو اسسٹنٹ کمشنر برکلے کی انگریز فوجیوں نے جھامرے پر چڑھائی کی لیکن شہید رائے احمد خان کھرل گرفتار نہ ہو سکے۔پھر بچوں اور عورتوں کو گرفتار کر کے گوگیرہ جیل میں بند کرنے کے ساتھ تمام مال مویشی کو قبضہ میں لے لیا۔
گوگیرہ ساہیوال میدان جنگ کی شکل اختیار کر گئے۔ 21 ستمبر 1857کو ایک بڑا معرکہ ہوا۔ انگریز فوج کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ اس معرکہ میں رائے احمد خان کھرل شہید ہو گئے وہ بھی اسی وقت روزے کی حالت میں نماز عصر ادا کرتے ہوئے ساتھیوں سمیت شہید ہو گے۔ 22 ستمبر کو برکلے کا آمنا سامنا دریائے راوی کے کنارے پر مجاہدین کے ساتھ ہو گیا۔ جس میں مراد فتیانہ کے ہاتھوں برکلے مارا گیا۔ گورا فوج نے ان کو پکڑ کر کالے پانی بھجوا دیا۔شہید رائے احمد خان کھرل اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد ان کے پسماندگان پر جو مظالم ہوئے انہیں تاریخ دانوں نے کیوں بھلا دِیا ؟؟
انگریز سرکار سے وفاداری کے صِلے میں بالائی طبقہ میں شامل ہونے والے کالے انگریز گورے انگریزوں سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوئے۔
جِن قبائل نے تحریکِ آزادی میں قربانیاں دِیں انہیں تعلیم سے محروم رکھا گیا۔ انہیں پرائمری سکول میں پڑھنے کے لئے بھی کئی کئی میل پیدل سفر کرنا پڑا تھا۔1857 کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کی بربریت کا نشانہ بننے والی اور گذشتہ 150 سال تک ظلم کی چکی میں پسنے والی اِس علاقے کی برادریوں کی تفصیل سٹوری بی زیڈ یونیورسٹی ملتان کے سنئیر پروفیسر ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ نے تاریخ مرتب کی جو مارکیٹ میں آچکی ہے۔ شہید رائے احمد خان کھرل کے جرمِ تحریک آزادی کی وجہ سے کھرل قوم کے 18 سال سے اوپر تمام افراد سے صبح سے شام تک بیگار لی جاتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تنگ آکر وہ لوگ وہاں سے نقل مکانی کر گئے
اور انہوں نے اپنی شناخت بھی ختم کر دی۔ بہت سے لوگ انگریزوں کے مظالم سے بچنے کے لئے کھرل سے کھر اور ہرل کہول کہلانے لگے۔ جو نوجوان بیگار سے بھاگ جاتے تھے انہیں رسا گِیر قرار دے کر جیلوں میں بند کر دیا جاتا تھا۔ اِس علاقے کے لوگوں کو یہ سزا سالہا سال تک دی جاتی رہی۔21 ستمبر 1857 ء کے دن ہی محرم کی 10تاریخ تھی۔شہید رائے احمد خان کھرل کی
شہادت کے دو دن بعد ان کے ایک قریبی دوست مراد فتیانہ نے برکلے کو ہلاک کردیا۔شہید رائے احمد خان کھرل کی عظیم قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔1857کی جنگِ آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں خاص طور پر کھرل خاندان کے لوگوں نے دی تھی۔پھر کیا وجہ ہے کہ دھرتی کے عظیم ہِیرو شہید رائے احمد خان کھرل کو تاریخ دانوں اور حکمرانوں نے نظر اندازکر دیا۔ آخر کیوں ؟؟شہید رائے احمد خان کھرل کی سالانہ برسی حکومتی سطح پر نہ منانا افسوسناک ہے۔