کپتان جی صوبائی پولیس افسران و رملازمین کو انصاف دو 214

سندھ پولیس کا دبنگ ہیرو ایس ایس پی

سندھ پولیس کا دبنگ ہیرو ایس ایس پی

تحریر: اکرم عامر
وٹس ایپ: 0306-3241100
فون نمبر: 03008600610

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ وطن کے دفاع اور قانون پر عملداری میں پاک فوج کے بعد قانون نافذکرنے والے اداروں میں پولیس فورس کا کردار ہر سطح پر نمایاں رہا ہے ، جہاں سرحدوں پر پاک فوج کے جوان دن رات وطن عزیز کی حفاظت کیلئے کمر کسے ہوئے ہیں اور دفاع وطن پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں ، دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ملکی دفاع کو مضبوط کیے ہوئے ہیں ، جن کی دہشت و ہیبت سے دشمن ملک پر ہر وقت سکتہ طاری رہتا ہے ٹھیک اسی طرح پولیس فورس کے جوان بھی چوبیس گھنٹے دن رات ڈیوٹی کرکے جرائم پیشہ عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ دفاع وطن کیلئے کوشاں ہیں ،

تھانہ،کچہری،مساجد،امام بارگاہوں، گرجا گھروں،سرکاری دفاتر، بینک، حساس مقامات، حتی کہ ابیسیوں مقامات پر سیکورٹی ڈیوٹیاں بھی پولیس کے جوان احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں جس کے نتیجہ میں سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ بشمول گلگت بلتستان میں افسران سے لے کر پولیس کے کانسٹیبلز تک آئے روز اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کررہے ہیں۔ لیکن ہماری قوم کا یہ المیہ ہے کہ ہم سب سے زیادہ تنقید بھی اپنے ملک کی فورسز بالخصوص پولیس پر ہی کرتے ہیں اور ایسے افسران کو خراج تحسین پیش نہیں کرتے جو جرم اور جرائم کے خاتمہ کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔
صوبائی محکموں کی پولیس کو وفاقی حکومت کی خصوصی توجہ حاصل ہوتی ہے اور صوبوں کی اس ضمن میں ہر طرح مدد کرتی ہے تاکہ ملک میں امن و امان قائم رہے اور جرائم بروقت کنٹرول ہو سکیں، کچھ سال قبل تک ملک کے صوبوں بالخصوص سندھ میں پولیس کا نام سامنے آتے ہی خوف کا احساس ہوتا تھا اور بڑے بڑے سنگین جرائم رونما ہونے کے باوجود لوگ مقدمات کے اندراج سے کتراتے تھے، پھر اسی صوبہ میں ایسے افسران کی آمد ہوئی جن کی مثبت اور بہترین حکمت عملی کے نتیجہ میں بڑے بڑے جرائم پیشہ لوگ اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں بھی کچھ کچھ امن کی فضاء دیکھنے میں آئی،

انہی پولیس افسران میں ایس ایس پی تنویر حسین تینو بھی شامل ہیں جن کی کارکردگی سندھ میں جرائم کے خاتمہ کے حوالے سے سب سے آگے دیکھی جا رہی ہے۔ موصوف نے بطور ایس ایس پی سکھر چارج لیا ہی تھا کہ جمعیت علماء اسلام کے جنرل سیکرٹری خالد محمود سومرو کو شہید کر دیا گیا، جس پر پورے ملک میں مذہبی حلقوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا، اس اندھے قتل کے ملزمان کو گرفتار کرنا سندھ بالخصوص سکھر پولیس کے لئے چیلنج تھا مگر ایس ایس پی تنویر حسین تینو نے جدید بنیادوں پر تفتیش کرتے ہوئے

اس اندھے قتل کے ملزمان کو گرفتار کیا، نوشیرو فیروز میں قتل ہونے والے صحافی عزیز میمن کے قتل کیس کی جے آئی ٹی میں محکمہ داخلہ سندھ نے متذکرہ ایس ایس پی تنویر حسین تینو کو بطور خاص نامزد کیا،اس واقعہ کے تمام ملزمان بھی انتہائی حکمت عملی سے گرفتار کیے جا چکے ہیں اور صرف ایک ملزم تا حال روپوش ہے۔ لاڑکانہ، دادو، نواب شاہ میں تعیناتی کے دوران ایس ایس پی تنویر حسین تینو نے اعلی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے بڑے بڑے جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا،

جن میں سندھ پولیس کو 128 مقدمات میں مطلوب بدنام زمانہ ڈاکو نظرو ناریجو بھی شامل تھا۔ حکومت نے اس کے زندہ یا مردہ گرفتاری پر دو کروڑ روپے کا انعام رکھا ہوا تھا، جسے ایس پی تنویر حسین تینو نے خفیہ اطلاع پر گھیرائو کیا تو مقابلہ میں نظرو ناریجو مارا گیا، جس سے سندھ میں دہشت کا ایک باب دفن ہو گیا۔ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کی بہترین کارگردگی کو دیکھتے ہوئے سندھ حکومت نے حکومت پاکستان سے ان کے لئے پاکستان کاچوتھا بڑا اعزاز قائد اعظم میڈل دینے کی شفارش کی ہے

سندھ کے مختلف اضلاع میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے بعد ایس ایس پی موصوف اس وقت ضلع شکار پور میں تعینات ہیں شکار پور میں بڑھتے ہوئے قبائلی تصادم اغوا برائے تاون اور ڈاکوؤں کی جانب سے تین پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے کے بعد سندھ بھر میں سیاسی سماجی اور عوامی سطح پرتھرتھلی مچ گئی تھی اور ان بڑھتے ہوئے واقعات پر سندھ حکومت سخت دبائو میں تھی جس پر حکومت سندھ نے خاص ٹاسک دے کر ایس ایس پی تنویر حسین تینو کو نوابشاہ سے شکار پور تعینات کیا تو متذکرہ ایس ایس پی نے ڈاکوئوں کے خاتمہ کیلئے ایک اعلی سطحی ٹیم تشکیل دی اور کچہ کے علاقہ میں کومبنگ آپریشن شروع کر کے ڈاکوئوں کی ناکہ بندی کی، بہترین حکمت عملی کے بعد تین اہلکاروں کو شہید کر کے ان کی لاشیں اور بکتر بند گاڑی پر ڈانس کرنے والے بدنام زمانی جھنگل تیغانی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو پولیس مقابلے میں جھنگل تیغانی بھی مارا گیا،

جس کے ساتھ بدنام زمانہ ڈاکو جان محمد عرف جانو بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ ان ہر دو ڈاکوئوں جو کہ علاقہ میں بڑے گینگ چلا رہے تھے کی ہلاکت پر شکار پور پولیس کی کارکردگی کو سندھ سمیت پاکستان بھر میں سراہا گیا، ذرائع کہتے ہیں کہ متذکرہ ایس ایس پی تنویر حسین تینو کی تعیناتی سے پہلے شکارپور میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کی بہتات تھی اور اغواء کاروں نے اسے کاروبار بنا رکھا تھا، قبائلی دہشتگردی اور سٹریٹ کرائم سے ضلع میں خوف کی فضا تھی، جس کے باعث پولیس اور عوام میںکافی دوریاں تھیں، ایس ایس پی موصوف نے ماتحت پولیس کو فری ہینڈ دیا جس سے سٹریٹ کرائم کی شرح انتہائی کم ہو کر رہ گئی،

اور قبائلی تصادم میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے، موصوف کی 100 دن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اغواء برائے تاوان کی وارداتیں ختم ہو کر رہ گئی ہیں، جبکہ ان مختصر دنوں میں دو انعام یافتہ ڈاکو جھنگل تیغانی اور جانو تیغانی سمیت 15 خطرناک ڈاکو پولیس مقابلے میں اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں، جبکہ 6 ڈاکوئوں کو زخمی حالت میں جدید اسلحہ سمیت گرفتار کیا گیا ہے اور موصوف ایس ایس پی تنویر حسین تینو نے شکار پور سمیت سندھ کے مختلف اضلاع سے 26 اغواء شدہ افراد کو بغیر کسی نقصان کے بازیاب کرایا گیا ہے،

جبکہ 33 افراد کو خواتین کی آواز میں جھانسہ دے کر اغواء ہونے سے بچا لیا گیا، ایس ایس پی موصوف کی 100 دن کی تعیناتی کے دوران 145 ریکارڈ چھاپے مارے گئے، 18 غیر قانونی بس اسٹینڈ ختم کرائے گئے، 38 پولیس مقابلوں میں 148 مجرم، 262 اشتہاری، 153 مفرور ملزمان گرفتار کر کے لاکھوں روپے کا اسلحہ منشیات اور موبائل فون برآمد کیے گئے ہیں، یاد رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے ایس ایس پی موصوف کو 100 بدنام ڈاکوئوں کی لسٹ بھیجی گئی تھی جن میں زندہ یا مردہ گرفتاری پر انعام کی سفارش کی گئی تھی،

جس میں سب سے بڑا انعام دو کروڑ روپے رکھا گیا تھا، جنہیں ایس ایس پی تنویر حسین تینو نے اپنے انجام تک پہنچایا۔ بلا شبہ ایس ایس پی شکار پور موصوف کی حالیہ 100 دنوں میں سندھ پولیس میںکارکردگی مثالی ہے، لیکن قوم کا المیہ یہ ہے کہ قوم ایسے افسران کو خراج تحسین پیش کرنے سے کتراتی ہے۔ لیکن راقم ببانگ دہل کہتا ہے کہ یہ ہماری قوم کا ایسے افسران سے نا مناسب رویہ ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایسے افسران کی کارکردگی کو ہر سطح پر سراہا جاتا اور دوسرے افسران کو ان کی تقلید کرنے کی سوچ دی جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہورہا، سندھ حکومت نے جرات مند آفیسر کیلئے حکومت پاکستان کو قائد اعظم میڈل دینے کی سفارش کی ہے،

کیونکہ وفاق اور سندھ پولیس میں ہم آہنگی کم ہے لیکن وفاق کو فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے افسران کو قائد اعظم میڈل دینے کا اعلان کرنا چاہئے تا کہ ان کی کارکردگی کو دیکھ کر سندھ کے دوسرے افسران بھی ان کی طرح جرم اور جرائم کا پیچھا کر سکیں۔ تا کہ سندھ میں بھی دوسرے صوبوں کی طرح امن و امان کی فضا قائم ہو سکے۔ کپتان جی ایسا تب ہی ہو گا جب آپ کی حکومت سندھ پولیس اور سندھ کے باسیوں کوبھی اپنا سمجھے گی۔ سندھ کے عوام کی نظریں اب کپتان جی آپ کی طرف ہیں کہ حکومت سندھ کی سفارش پر کیا کرائم فائٹر ایس ایس پی تنویر حسین تینو کو قائد اعظم میڈل دیا جاتا ہے؟ یا یہ معاملہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں