قائداعظم اور بوٹ پالش
تحریر: رانا محمود
وائس آف ٹائم
قائد ، تم کون ہو ؟صاحب ، میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فرسٹ ایئر کا طالب علم ہوں ۔قائد ، بوٹ پالش کیوں کرتے ہو ؟
صاحب ، میں ایک غریب طالب علم ہوں اور اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے بوٹ پالش کرتا ہوں ۔ قائد ، بوٹ پالش کرنا آپکے نزدیک معیوب نہیں ؟“ جی صاحب ، میں اسے معیوب سمجھتا تو ہوں لیکن کیا کروں مجبور ہوں ۔قائد ۔ غریب ہونا کوئی جرم نہیں
اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہئے ۔ میں خود ایک متوسط درجے کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور میرے والد کوئی امیر آدمی نہ تھے ۔پھر فرمایا ، میں علی گڑھ کے ایک طالب علم کا یہ جذبہ دیکھ کر بہت خوش ہوں کہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے بوٹ پالش کرتا ہے ۔”یہ مکالمہ سندھ کے علاقے شکار پور سے تعلق رکھنے والے غلام صابر انصاری اور قائد اعظم رح کے درمیان بمبئی کے تاج ہوٹل کے لاؤنج میں ہوا ۔ اس مکالمے کو ایک معروف پاکستانی مؤرخ اور سکالر منیر احمد منیر نے قلمبند کیا ہے ۔
قائداعظم اپنی قوم کے افراد کو اور بالخصوص عام عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہوا دیکھنا چاہتے تھے ۔ وہ مسلمانوں کی معاشی زبوں حالی پر ہمیشہ متفکر رہتے اور انہیں کاروبار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے میں بہت زور دیتے ۔ ساتھ ہی ساتھ قائد سرمایہ داروں اور زمینداروں کو بھی متنبہ فرماتے کہ وہ عام عوام کے استحصال سے باز رہیں ۔قائد کا یہی وہ ادھورا خواب تھا جسکا تذکرہ یہاں برطانیہ میں متعین سابقہ سفیرِ پاکستان
واجد شمس الحسن کے بھائی خالد شمس الحسن نے اپنی تالیف “ قائداعظم کا ادھورا خواب” میں کیا ہے ۔قائد کے نزدیک کوئی بھی کام حقیر نہ تھا بلکہ وہ ایسے اشخاص کی حوصلہ افزائی فرماتے جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے بوٹ پالش تک کو ذریعہ معاش بناتا ہے ۔آپ اس بات سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب بھی کوئی مسلمان مسلم لیگ کا کُل وقتی کارکن بننے کی پیش کش کرتا تو قائداعظم سب سے پہلا سوال یہ پوچھتے کہ تمہارا ذریعہ معاش کیا ہے اور اس بات کی تسلی کر لینے کے بعد کہ اُس کے کُل وقتی کارکن بننے سے اُسکے گھر والوں کے نان و نفقہ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا تو اُسکی پیشکش قبول فرما لیتے ۔
بسا اوقات ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اپنا من پسند کام ملنے تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور معمولی کام کرنے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں جبکہ محنت میں ہی عظمت ہے اور کسی بھی کام کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے ۔آپ یہاں برطانیہ میں رہنے والے کامیاب افراد کی اکثریت کو دیکھ لیجئیے کہ آغاز میں اُنہیں معمولی کام کرنا پڑے ۔ کسی نے پیزا ڈیلیوری کی تو کسی نے ریسٹورینٹ میں ویٹر کا کام کیا اور کسی نے ٹیکسی چلانے کو اپنا ذریعۂ معاش بنایا اور کامیابی کی منازل طے کیں ۔قائداعظم نے 5 نومبر 1944 کو اکنامک پلاننگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوے فرمایا کہ ہمارا مقصد امیر کو امیر تر بنانا اور چند افراد کے ہاتھوں دولت کے انبار لگانا نہیں بلکہ ہماری توجہ عوام الناس کا عمومی معیارِ زندگی بہتر اور مساویانہ بنانے پر ہونی چاہئے ۔
کالم تھوڑا سنجیدہ ہو گیا ، آپ کی تفریح طبع کیلئے اور ٹیکسی کو ذریعۂ معاش بنانے والے دوستوں کی خدمت میں بالخصوص ۔۔ برطانیہ میں رہنے والے ایک معروف شاعر اور ہمارے دوست مبارک صدیقی صاحب کے چند مزاحیہ اشعار
پنجرے دے وچ پھڑک گئے آں
ٹیکسی کر کر کھڑک گئے آں
پائلٹ بنن دا شوق سی لیکن
ہر تھاں سڑکو سڑک گئے آں
سارے جوڑ ہلا بیٹھے آں
اسی کِتھے آ بیٹھے آں
اور آخری بات عرض ہے
کہ وہی افراد اور قومیں ترقی کرتی ہیں جو محنت کو اپنا شعار بناتے ہیں کہ ارشادِ نبوی ہے
الکاسب حبیب اللّٰہ ۔ یعنی محنت کرنے والے کو اللّٰہ اپنا دوست جانتا ہے ۔