ڈپریشن کا شکار معاشرہ کی اکثریت 162

ماہرعلوم دینیہ کا ماہر قانون کا پیشہ اختیار کرنا معاشرے کے لئے نیک شگون

ماہرعلوم دینیہ کا ماہر قانون کا پیشہ اختیار کرنا معاشرے کے لئے نیک شگون

نقاش نائطی
۔ +966562677707

کسی ایک شخصیت میں وکیل و مولوی کا اشتراک اپنے وقت کے بدنام زمانہ پیشہ وکالت کو، وہ اعلی مقام اقدار عطا کرسکتا ہے جو فی زمانہ انصاف کے لئے،ترستی انسانیت کو انصاف دلانے والے وکلاء کو حاصل ہونا چاہئیے۔ کسی مظلوم کو ظالم کے ظلم سے بچانا جہاد ہے اس قول کو سچ ثابت کرتے، کسی عالم دین کے پیشہ وکالت سے سرفراز ہوتے دیکھ، انصاف کے لئے ترستی انسانیت کو، امیدیں وابسطہ ہوسکتی ہیں، ویسے کوئی پیشہ اپنی اثاث سے لائق طنز و طعن نہیں ہوتا لوگ اپنے برتاؤ اور عمل شیطانی سے،اسے بدنام و رسوا کیا جاتا ہے
اکبر آلہ آبادی کے اس مشہور زمانہ شعر کو آج کے علماء حضرات ماہر قانون بنتے ہوئے،بالکیہ غلط ثابت کرسکتے ہیں

پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے

مرحوم اکبر آلہ آبادی سے معذرت کے ساتھ احقر کی تک بندی

کوئی عالم جب ماہر قانون بن گیا
شیطان نے کہا،میرا خانہ خراب ہوگیا

فی زمانہ کسی محافظ دین اسلام کے، “پیشہ محافظ قانون”سے منسلک ہونے کی، مسلم معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔مولوی سلطان اسماعیل الجی منکوی کے علوم دینیہ کی فضیلت تعلیم بعد، ماہر قانون بنتے اور پیشہ وکالت سے منسلک ہوتے، تڑپتی سسکتی انسانیت کی خدمت کرنے کے جذبہ سے، نئی نسل کے لئے وہ مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اللہ انکے جذبات کو قبول کرے اور دینی علوم ماہرین کو اس سمت اپنا معشیتی سفر جاری رکھنے کی توفیق کرے

کسی بھی عالم دین کا اعلی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، اپنی دینی تعلیم کے بل سے، قوم و ملت کی خدمت کرتے اپنی معشیتی ضروریات پوری کرنا بالکلیہ لائق تحقیر کام نہیں ہے لیکن کوئی ماہر تعلیم دین، معشیتی طور مضبوط ہوتے ہوئےللہ فاللہ ترویج دین کی خدمات انجام دے تو، دنیوی اعتبار مشیتی طور کامیاب لوگوں کی آنکھوں سے آنکھیں ملا، نہی عن المنکر بہتر انداز کرسکتا ہے۔ ہمارے استاد مرحوم پروفیسر رشید کوثر فاروقی علیہ الرحمہ جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھنے کے سبب، انگریزی تعلیم ماسٹر ڈگری کے لئے داخل کلیہ کئے گئے تھے۔ لیکن ان کا ذوق علوم دینیہ،انہیں انگرئزی تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ، علوم دین کی فصیلت اصلاحی حاصل کرنے مجبور کئے ہوئے تھی ۔چار دیے قبل ان کے تلمیذ خاص رہتے، ہمارے استفسار پر انہوں نے کہا تھا

کہ اس انگرئزی تعلیم کی انکی نظروں میں صرف اتنی ہی قدر و منزلت ہے کہ وہ اس سے معشیتی طور خود کفیل ہوتے ہوئے، ان کی اصل تعلیم، علوم دینیہ سے عصر حاضر کے طلبہ کی درس و تدریس اور پند و وعظ سے، دعوت اسلام کی خدمات انجام دے سکیں۔ یہی اسلوب فی، زمانہ علماء ھند میں، اپنے افکار اسلاف سے معتوب مملکت سعودی عرب کا رہا ہے کہ ماہر علماء و فضلاء کی اعانت کر، انہیں پیشہ تجارت سے منسلک کرتے ہوئے،

معشیتی طور انہیں فارغ البال کر، انہیں دعوت دین اسلام کی خدمات پر معمور کیا کرتے ہیں تاکہ معشیتی طور مستحکم مسلم معاشرہ میں، انہیں وہ عزت و افتخار ملے جس کا زمانہ عصر حاضر متقاضی رہتا ہے۔ اور یقینا تجارت نہایت بابرکت پیشہ ہے اور وہ بھی نیک نیتی سے گر کیا جائے تو، برکت ہوتے، تجارت پھلنا پھولنا لازم عمل ہے۔ اپنے وقت کے ماہر تجار آل نائط کے سپوت نئی نسل کے علماء حضرات، دینی تعلیم فراغت بعد دیگر پیشوں سے منسلک ہونے کے بجائے، کسی بھی جائز اشیاء تجارت سےمنسلک ہوجائیں تو، ایک کامیاب تاجر کے ساتھ ہی ساتھ، اپنے حسن اخلاق و کردار عالیہ سے،اپنے معشتی سفر سے منسلک، اغیار کے لئے بھی ایک بہترین عملی نمونہ بن، داعی دین کی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ وماعلینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں