محسن پاکستان، عبدالقدیرخان بھی آسودہ خاک 150

پنجاب کے بلدیاتی اداروں کا نوحہ

پنجاب کے بلدیاتی اداروں کا نوحہ

تحریر اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر03063241100
موبائل نمبر 03008600610

ترقی یافتہ ممالک برطانیہ ،امریکہ، فرانس، ملائیشیا، اٹلی، جاپان، ترکی، تائیوان، سمیت دنیا کے درجنوں ممالک کی سیاست کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان ممالک کی ترقی میں بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کا عوامی مسائل حل کرنے میں اہم کردار ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان ممالک کے سربراہان یا بیوروکریسی ذہنی شعور نہیں رکھتی، جنہوں نے بلدیاتی اداروں کے ذریعے اختیارات عوام کو نچلی سطح پرمنتقل کیے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے ان ترقی یافتہ ممالک کی بیورکریسی اور سیاستدانوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اختیارات عوامی سطح پر منتقل کئے بغیر نہ تو ملک ترقی کرسکتے ہیں، اور نہ ہے، ملک کے باسیوں کوصاف ستھرا ماحول فراہم کیا جاسکتا ہے جس سے ملک کا صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکے،

اور نہ ہی بنیادی مسائل عوام کی دہلیز پر حل ہو سکتے ہیں؟ اسی تناظر میں جنرل پرویز مشرف کے عسکری دور میں پرانے بلدیاتی نظام کو تبدیل کرکے ترکی کے طرز کا بلدیاتی نظام پاکستان میں متعارف کرایا گیا تھا اور اختیارات عوامی سطح پر منتقل کئے گئے تھے، اختیارات عوامی سطح پر منتقل ہونے سے جہاں شہری اور دیہی علاقوں کے مکینوں کو بنیادی سہولیات گھر کی دہلیز پر ملنا شروع ہوگئی تھیں، جس سے نا صرف تھانہ کی سطح پر اندراج مقدمات میں کمی واقعہ ہوئی۔ بلکہ عوام کی اکثریت کے مسائل انکے علاقے کے بلدیاتی نمائندے ہی نمٹاتے رہے، پرویز مشرف دور میں متعارف کروائے گئے بلدیاتی نظام سے عوام کی اکثریت بیورو کریسی اور ملک کے بڑے سیاستدانوں سے دور ہوگئی تھی،

جس کی وجہ سے پرویز مشرف کی حکومت کے خاتمے کہ بعد آنے والی حکومتوں نے پرویز مشرف دور کے بلدیاتی نظام میں اپنی ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کیں تاکہ بڑے سیاست دانوں کے ویران ڈیرے آباد ہو پائیں، اس میں بیوروکریسی کا بھی اہم کردار تھا، مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں پنجاب میں پانچ سال کیلئے 2015 میں منتخب ہوکر بوجہ 2017 میں حلف اٹھا کر برسر اقتدار آنے والے بلدیاتی ادارے، میٹروپولیثن کارپوریشز، میونسپل کارپوریشنز، تحصیل میونسپل کمیٹیز، چیئر مین ضلع کونسلز و ان کے نائبین و نمائندوں جن کی اکثریت مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتی ہے تبدیلی کی دعویدار کپتان کی حکومت نے یک جنبش قلم ایک غیر آئینی آرڈینس کے ذریعے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کے ،58ہزار کے لگ بھگ عوامی نمائندگان گھربھجوا دیا تھا، جبکہ ان کے دور حکومت کے دوسال باقی تھے، راقم کی ذاتی رائے کے مطابق پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو تحلیل کرنے کی وجہ صوبہ کے اکثریت بلدیاتی اداروں کے سر برہان کی حکومت مخالف جماعت پاکستان مسلم ن سے وابستگی تھی،

بلدیاتی اداروں کو تحلیل کرکے ایڈمنسٹریٹرز مقرر کئے گئے، جو اب تک کام کر رہے ہیں، ان ایڈمنسٹریٹرز کے کندھوں پر سرکاری عہدہ کے ساتھ بلدیاتی اداروں کی سربراہی کا بوجھ ڈال کر انہیں دو بیڑیوں کا سوار بنا دیا گیا، اور اس طرح پنجاب کی عوام کی اکثریت کاک بال بن کر رہ گئی، جان کی امان پاؤں تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے سندھ، خیبرپختون خواہ اور بلوچستان کے بلدیاتی اداروں کے بلدیاتی نمائندوں کو نہیں چھیڑا اور انہوں نے اپنا عہدہ کا دورانیہ 5 سال مدت پوری کی، اور اپنے صوبوں میں نہ صرف عوام کو ریلیف دیا بلکہ بڑے بڑے میگا پراجیکٹس پر کام بھی کروایا،

اور اب تک جاری ہے پنجاب کے بلدیاتی ادارے محض اسلئے تحلیل کر دیئے گئے کہ ان کے سربراہان کی اکثریت نے سیاسی ذرائع کے مطابق اپنی سیاسی جماعت سے وفاداریاں بدلنے سے انکار کر دیا تھا، بات یہاں ہی ختم نہیں ہوجاتی بزدار سرکار کی ہدایت پر بلدیاتی اداروں کے ذریعے شروع کیے گئے اکثریتی اضلاع میں ترقیاتی کام بھی اب تک رکے پڑے ہیں، بلدیاتی اداروں کے غیر فعال ہونے کے باعث بڑے چھوٹے شہر گندگی سے اٹے پڑے ہیں، پینے کے صاف پانی کے لئے لگائے فلٹریشن پلانٹس کی پنجاب میں81فیصد تعداد خراب ہو چکی ہے، اور عوام مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں،جس سے پنجاب میں پیٹ اور انتڑیوں کے مریضوں کی تعداد میں طبی ماہرین کے مطابق 2019 سے اکتوبر 2021 کے ابتدائ￿ تک 55 فیصد اضافہ ہوا ہے، اسی طرح کسی شہری کو اپنی کوئی دستاویز جو پہلے بلدیاتی نمائندے ان کے گھر کی دہلیز پر تصدیق کر دیتے تھے

وہ دستاویزات کی تصدیق کرانے کیلئے بھی اب عوام کو سرکاری ملازمین کے دفاتر کا رخ کرنا پڑ رہا ہے، اور افسران کئی کئی ہفتے اپنے دفاتر میں دستیاب نہیں ہوتے اور چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کیلئے عوام سرکاری دفاتر کے چکر لگا لگا کر تنگ آئے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جس سے پی ٹی آئی کا مورال متاثر ہو رہا ہے۔سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی بلدیاتی اداروں کو قبل از وقت معزول کرنے کی تو جب بلدیاتی ادارے معزول کر دیئے گئے تو اس وقت سے بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کی اکثریت قانونی جنگ لڑ رہی ہے،

جن میں مئیرلاہور کرنل مبشر جاوید مئیر سرگودھا ملک اسلم نوید،چیرمین ضلع کونسل، ٹوبہ ٹیک سنگھ فوزیہ خالد وڈائچ، میئر بہاولپورعقیل نجم ہاشمی،چیئر مین ڈسٹرکٹ کونسل ناروال احمد اقبال،مئیر ساہیوال اسدعلی خان،میئر فیصل آباد ملک عبدلرزاق، چیئرمین ضلع کونسل قصور رانا سکندر حیات،چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل لودھراں راجن سلطان، چیئرمین ضلع کونسل گجرانوالہ مظہر قیوم ناہرہ، یوتھ پنجاب کے صدر ملک صدام حسین، سمیت دیگر بلدیاتی اداروں کے سربراہ شامل ہیں، اس قانونی جنگ کے نتیجہ میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے 25مارچ 2021 کو پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا، اور حکومت کے جاری کردہ آرڈینس جس کے تحت پنجاب کے بلدیاتی ادارے معطل کیے گئے تھے کو بھی غیر قانونی قرار دے کر معطل کر دیاتھا۔

اور قرار دیا تھا کہ بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو اپنا دورانیہ پورا کرنے دیا جائے، اس طرح عدالت کے حکم پر بیک جنبش قلم بلدیاتی اداروں سے فارغ کئے گئے 58ہزار بلدیاتی نمائندے بحال ہو گئے، لیکن 25 مارچ سے اب تک حکومت پنجاب نے کسی بھی شہر میں کسی بلدیاتی نمائندے کو بلدیاتی دفتر فراہم نہیں کیا اور رکاوٹ پیدا کی، اس طرح بلدیاتی اداروں کی بحالی کے باوجود پنجاب بھر کے بلدیاتی نمائندے جن میں میئرز، چیئر مین ضلع کونسلز، چیئر مین ٹا?ن کمیٹیز،ان کے نائبین اور کونسلرز شامل ہیں سردست اپنے اختیارات استعمال نہیں کر پا رہے، سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر عملدرآمد کیلئے متذکرہ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے اور عدالت عالیہ کی جسٹس عائشہ ملک نے حکومت پنجاب سے 12 اکتوبر تک جواب طلب کر رکھا ہے اور وضاحت طلب کی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو پایا،

جبکہ کئی اضلاع کے بلدیاتی اداروں کے سربراہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں سو اس طرح بلدیاتی اداروں سے وابستہ نمائندے ایک طویل قانونی جنگ لڑ رہے ہیں، جس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔لیکن کپتان جی جان کی امان پا?ں تو یہ بات حقیقت ہے کہ جن ممالک میں اعلی عدلیہ کے فیصلوں کا احترام اور ان پر عملدرآمدنہیں ہوتا وہ ملک کبھی ترقی نہیں پاتے۔ بلکہ ہمیشہ روبہ زوال رہے ہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان نے 25 مارچ کو بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا،

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت پنجاب عدالت کے حکم کو کھلے دل سے تسلیم کرتی اور تمام اضلاع، تحصیلوں میں بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو کام کرنے کیلئے حسب سابق دفاتر فراہم کیے جاتے تو اس سے حکومت کا مورال بلند ہوتا کہ حکومت نے عدالت کے حکم پر عملدرآمد کر کے جمہوری بلدیاتی دور کو آگے بڑھنے کا موقع دیا ہے لیکن رکاوٹیں پیدا کر کے حکومت نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے مخالف کسی کو برداشت نہیں کرتی

سو اب بلدیاتی اداروں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے عدالت عالیہ لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے، اور عدالت نے اس کیس کی سماعت 12 اکتوبر کو کرے گی، حکومت پنجاب عدالت میں اعلی عدالت سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کی کیا وجہ بیان کرے گی؟ یا اس سے پہلے بلدیاتی اداروں کو کام کرنے کیلئے دفاتر سونپ دیئے جائیں گے، عوام کی نظریں 12 اکتوبر کے عدالتی سماعت پر لگی ہوئی ہیں، اس حوالے سے قبل از وقت کچھ کہنا مناسب نہیں؟ اس لئے قارئین کو انتظار کرنا ہو گا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں