ڈپریشن کا شکار معاشرہ کی اکثریت 190

ڈپریشن کا شکار معاشرہ کی اکثریت

ڈپریشن کا شکار معاشرہ کی اکثریت

نقاش نائطی
۔ +966562677707

لین شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ:- اگر تم میرا شکر ادا کرو گے، تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔آج کا یہ جدت پسند ترقی پذیر زمانہ ، جتنی تیزی سے اپنی سائینسی ترقی کی معراج پر پہنچتا جاتا ہے، اتنا ہی اشرف المخلوقات حضرت انسان، جس کے لئے یہ زمانہ تخلیق کیا گیا ہے، نت نئے تفکر کا شکار بنتا، خالق کائینات نے اسے جس حال میں بھی رکھا ہے، اس پر تشکر ایزدی ادا کرتےخوش رہنے کے بجائے، “دل مانگے مور” کچھ اور کچھ اور کی طلب کرتا، نہ صرف صدا غیر مطمئن پایا جاتا ہے،بلکہ اپنی غیراطمینانی میں، ذہنی کوفت و دباؤ کا شکار بنتے ہوئے، اپنےآپ کو ذہنی مریض بناتا پایا جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک 65 سالہ ڈِپریشن کا شکار شخص، ایک ماہر نفسیات سے ملاقات کے لئے پہنچتا ہے، اور کہا کہ میں شدید ذہنی دباؤ ڈِپریشن کا شکار ہوں ۔ میرے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ براہ کرم میری مدد کریں

ڈاکٹر نے اپنی مشاورت شروع کی، اس نے کچھ ذاتی باتیں پوچھی اور سپنے دل میں اٹھنے والے تمام تر گرد و غبار کو اس کے سامنے رکھنے کو کہا۔

وہ صاحب بولے! میں بہت پریشان ہوں، دراصل میں پریشانیوں سے مغلُوب ہوں، ملازمت کا دباؤ، بچوں کی تعلیم اور ملازمت کا تناؤ، ہوم لون، کار لون، مجھے کچھ پسند نہیں، دنیا مجھے پاگل سمجھتی ہے لیکن میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ میں اپنے ان تمام مسائل کو حل کرپاؤں، میں بہت اُداس اور پریشان ہوں. میرے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی پوری زندگی کی کتاب ڈاکٹر کے سامنے کھول دی۔
ڈاکٹر نے کچھ سوچا اور پوچھا کہ آپ نے انٹرمیڈیت کس اِسکول سے کیا ہے؟ اُس شخص نے اسے اِسکول کا نام بتایا، ڈاکٹر نے کہا:- آپ کو اس اِسکول میں جانا ہوگا پھر اپنے اسکول سے، آپ کو اپنی نویں دسویں کلاس کا رجسٹر تلاش کرنا ہوگا اور اپنے اس وقت کے تمام کلاس میٹ کے نام اور پتے تلاش کرنے ہونگے اور ان کی موجودہ خیریت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی، ایک ڈائری میں تمام معلومات لکھیں اور ایک مہینے کے بعد مجھ سے آکر ملیں

وہ شخص اپنے اسکول جاتا ہے، رجسٹر ڈھونڈنے میں کامیاب رہتا ہے، اور ویاں سے اپنے ہم کلاس تمام اے بی سی تینوں سیگمنٹ کے 120بچوں کے نام اور پتے نوٹ کرتا ہے،اس ایک مہینے میں دن رات تمام اسکولی دوستوں کے بارے میں موجودہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ بمشکل 75 ہم جماعتوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے میں کامیاب رہتا ہے

ان تمام 75 ہم جماعت دوستوں کے بارے میں جو معلومات وہ جمع کرنے میں کامیاب رہتا ہے یقینا اسے وہ معلومات حیرت زدہ کر دیتی ہیں !!!

ان 75 ہم جماعت میں سے 20 کا انتقال چکا تھا, 7 نے شادی ہی نہیں کی تھی اور رنڈوے کی زندگی گزار رہے تھے اور 13 طلاق یافتہ تھے, 10 ایسے نکلے جو کہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں تھے, 5 اتنے غریب نکلے کہ کوئی ان کے بارے معلومات جٹا نہیں پایا تھا سکا, 6 اتنے امیر نکلے کہ اُسے یقین ہی نہیں آیا, کچھ کینسرمیں مُبتلاتھے، کچھ ذِیابیطس، دمہ یا دل کے مریض یا فالج زد تھے، کچھ لوگ بستر پر تھے جن کے ہاتھوں/ٹانگوں یا ریڑھ کی ہڈی میں چوٹیں آئی تھیں, کچھ کے بچے پاگل، آوارہ یا بیکار نکلے, ایک جیل میں تھا۔ ایک شخص دو طلاق کے بعد تیسری شادی کی تلاش میں تھا, ایک ماہ کےاندرانٹرمیڈیٹ کے، اس کے ہم جماعت، ایک وقت کے دوستوں کا حال زندگی کھلی کتاب کی طرح، اذِیّت سے بھرا اس کے سامنے تھا

وہ سمجھ چکا تھا کہ اسے کوئی مُوزِی بیماری نہیں، وہ بھوکا بھی نہیں، اس کا دماغ دُرُست ھے، اسے عدالت، پولیس، وکلاء کا کوئی مسئلہ نہیں، اس کی بیوی اور بچّے بہت اچھے اور صحت مند ہیں، وہ خود بھی صحت مند ھے

اس شخص کو احساس ہوا کہ واقعی دنیا میں بہت زیادہ دُکھ ہیں، اور وہ ، بہت سے اذِیّت ناک دُکھوں سے محفُوظ ھے اس کے بچپن کے تمام دوستوں کے مقابلے میں، اپنی تکالیف کو، ان سے کم محسوس کرتے ہوئے، اسے اپنے خالق کائینات کا شکر ادا کرنے پر اسے مجبور کئے ہوئے تھا

اسے اب ڈاکٹر کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی پھر بھی وہ ایک ماہ بعد ہدایت مطابق ڈاکٹر کے پاس پہنچا

ڈاکٹر نے پوچھا! “اب بتاؤ تمہارا ذہنی تناؤ کیسا ہے”؟
اس نے کہا ڈاکٹر صاحب میں اپنے علاج کے لئے نہیں بلکہ آپ شکر ادا کرنے کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں۔ یہ آپ کامشورہ بہت عمدہ تھا کہ میں اپنے ماضی کے دوستوں کی زندگیوں کے بارے جانوں اور ان سے اپنے حالات کا موازنہ کروں۔ پس میں نے جان لیا ہے کہ خالق کائیبات میرے پروردگار نے،مجھے اپنے بچپن کے دوستوں کی اکثریت سے، بہت ہی اچھی حالت میں رکھا ہوا ہے۔ہاں ایک آدھ پرانے ہم جماعت، مجھ سے زیادہ تونگر ہیں، دور کے ڈھول سہانے جیسے بظاہر بہت خوش اور مطمین لگتے ہیں، لیکن ان کی زندگیوں میں جھانکنے پر مجھے، اس بات کا ادراک ہوا کہ وہ بھی وہ مجھ سےزیادہ پریشان، مصیبتوں کے مارے ہوئے ہیں۔ہر ایک کی تکالیف جدا جدا ہیں ان تکالیف کا احساس و ادراک انہیں ہی بہتر ہوتا ہے۔

مجھے اس بات کا بھی احساس ہوا، دور سے دوسروں کی پلیٹوں میں جھانکنے کی عادت چھوڑنی پڑے گی، اپنی پلیٹ کا کھانا پیار سے کھانا پڑیگا۔ دور سے دوسروں کی خوشحال آسودہ زندگیوں کو دیکھ کر، خود کے کڑھنے اور جلنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، بلکہ رہا سہا چین و سکون بھی کھونا پڑتا ہے اور اپنی منفی سوچ سے اپنی ایک حد تک مطمئن زندگانی کو بھی داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ اس لئے آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے اپنے ہی پرانے کلاس فیلو دوستوں کی زندگیوں میں جھانکتے ہوئے، ان کے ساتھ اپنا مُوازنہ نہ کرتے ہوئے، رب العزت نےجھے جس حال میں رکھاہے، اس پر اس کا شکر اداکرنے کی توفیق عطا کی ہے

اور پھر بھی اگر معاشرے میں کسی کو لگتا ہے کہ وہ اپنی کم مانگی کی وجہ ڈِپریشن کا شکار ہے تو آپنے کو بھی اپنے اِسکول لے جانا ہوگا، انٹرمیڈیت کا رجسٹر تلاش کر، اپنے بچپن کے دنوں کے دوستوں کی عملی زندگی میں جھانکنا ہوگا اور خالق کائیبات کے اس فرمان کو صدا یاد رکھنا ہوگا
لین شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ:- اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو، میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں