اُمتِ مُسلمہ کی واحداسلامی ایٹمی طاقت کاسہرا جس کے سرتھا۔وہ چراغ بُجھ گیا
آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ
ڈاکٹر عبدالقدیر نے پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ میں سہیل وزڑازئچ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوۓ چھلنی جگر سے کہنا تھا کہ مجھے اس قوم کے لیے کام کرنے پر پچھتاوا ہے شائد یہ قوم کے لیے ان کے آخری الفاظ تھے کیونکہ اختلاف کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے، لیکن حسد، منافقت اور بُغض کا نہیں جب ریاست کسی کی قابلیت چوری کرکے اسے داغدار کرکے بیرونی طاقتوں سے فائدے اٹھاتی ہے ،ظلم بے انصافی اور دہشت گردی کرتی ہے تو وہ پھر یہی کچھ کہتا ہے چا ہے وہ جتنا مرضی عظیم ہو پاکستان کے جوہری پروگرام کی روح رواں ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے انتقال پر ملک بھر میں سوگ کا ماحول ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیرجہاں پاکستان و اسلام میں ہیرو اور محسن مانے جاتے تھے وہیں انہیں مغربی دنیا کی طرف سے تنقید کا بھی سامنا تھا۔
انہوں نے مختلف بین الاقوامی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے اور اپنے شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ملک کے جوہری ادارے میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے 1974 ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ کرکے پاکستان تشریف لائے اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اپنا کردار ادا کیا، اسے مغربی دنیا نے اسلامی بم کا نام دیا۔ مرحوم کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ مگر ہم نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی تاریخ ساز ہے ۔ دسمبر 2004ء میں جب اسلام آباد میں سارک کانفرنس ہوئی تو ڈاکٹر مرحوم وفاقی وزیر کی حیثیت رکھنے کے باوجود ایک قیدی کی زندگی گزرار رہے تھے ۔
جس کی زندہ مثال یہ سارک کانفرنس کے اختتام پر جسمیں میں نے بھی ایک صحافی کی حیثیت سے شرکت کی تھی ۔ سمٹ کے اختتام پر میں جب مین گیٹ کی جانب آیا تو وہاں پرمولانا فضل الرحمن ، لیاقت بلوچ ، حافظ حسین احمد، اکرم درانی و دیگر ایم ایم کے قائدین کھڑے بات چیت کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں فخراسلام ڈاکٹر عبدالقدیر خان نمودار ہوئے اور انہوں نے مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں سے سوال کیا کہ حضرات میرے معاملے پر جنرل سے بات چیت ہوئی کہ نہیں جس پرحافظ حسین احمد نے کہا کہ آج بات ہوگی جس پر فخراسلام نے کہا کہ حضرت ایک پٹھان اہل کوفہ کے ہاتھوں بری طرح پھنسا ہوا۔جلدی کیجئے، اس موقع میں قریب کھڑا تھا تو میں نے ڈاکٹر مرحوم سے کہا کہ اہل سادات کی دعائیں آپ کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا ۔
فخر اسلام مسکرائے اور فرمایااللہِ کرے ایسا ہی ہو ۔ دیکھا جائے تو پاکستان کے جوہری پروگرام میں تین ادارو ں نے نمایاں کردار ادا کیا تاہم اس میں سے ایک ادارہ جس کے سربراہ ڈاکٹر عبدالقدیر تھے کا کردار سب سے نمایاں ہے ۔ ڈاکٹرعبدالقدیرکی پیشہ ورانہ مہارت بھی قابل ستائش تھی۔ وہاں ان کا یہ کردار کہ انہوں نے یورپ سے ایٹم بم بنانے کی تمام ٹیکنالوجی پاکستان منتقل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ان کو اس کردار پر جہاں مسلم ہیرو کا درجہ دیتے ہیں وہاں معرب نے اسے چور کا خطاب دیا
اور ان کے خلاف مقدمات درج کرائے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بنیادی طور پر میٹیلرجیکل انجینیئر تھے لیکن ایک بہترین ٹیکنیکل مینیجر بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ادارے کو انتہائی عمدہ طریقے سے چلایا اور جونیئر سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کی رہنمائی کی اور ملک کے سائنسدانوں نے ایک ٹیم کی طرح دن رات محنت کی اور پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا جس کی وجہ سے آج ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہے۔ایٹمی دھماکوں کے وقت مرحوم کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے جو رویہ اپنایا تاریخ میں اسے ایک سیاہ دور کے طورپر لکھا جائے گا ۔ کیونکہ ایک مخصوص طبقے نے اس کارنامے کا کریڈیٹ ایک اور شخص کو دینے کی کوشش کی ۔علاوہ ازیں اس عظیم انسان نے میزائل ٹیکنالوجی سے بھی ملک کو وہ مقام دلایا
جس کا تصور کرنا بھی آسان نہیں ہے ۔ جہاں تک ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کا تعلق ہے تو تین ادارے کا اپنا اپنا کردارتھا ،اس سلسلے میں کسی کو کم تر ثابت کرنا مناسب نہیں ۔تاہم اس سلسلے میں جب انیس سو اٹھانوے میں ڈاکٹر عبدالقدیر قوم کے ہیرو کے طور پر ابھرے وہیں جنرل مشرف کے دور میںانہیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور ٹی وی پر آکر ملک کی سلامتی و بقاء کی خاطر جوہری پھیلا وکے حوالے سے قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کا اعتراف کرنا پڑا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے اس اعتراف کے بعد زیادہ تر زندگی گوشہ تنہائی میں یعنی ایک قیدی کی طرح گزاری اور یہاں تک کہ ان کو سماجی تقریبات میں بھی زیادہ شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ ڈاکٹر نے جو اعتراف سے بہت پہلے کیا تھا وہ کوئٹہ کلب میں سید فصیحاقبال کی دعوت میں مرزا اسلم بیگ نے ریٹائرمنٹ کے یہی اعتراف والی باتیں کی تھیں ۔ گوشہ نشینی کے باوجودوہ باقاعدگی سے کالمز بھی لکھتے رہے
۔ ان کے یہ کالمز انگریزی اور اردو کے نمایاں اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ان کالموں میں ان کا موضوع زیادہ تر اسلامی تاریخ اور مذہب ہوتا تھا۔جس کی وجہ سے ملک میں کئی حلقے دائیں بازو کے ہمدرد کے نام سے جانتے تھے ۔لیکن وہ جمہوری خیالات اور ذوالفقار علی بھٹو کے قریب ترتھے۔ جس کی مثال یہ کہ انہوں نے ایک آمر کے ہاتھوں سزا موت سے بھٹو کی جان بچانے کے لیے بھی کوششیں کی تھیں۔ مرحوم کی خدمات جو ہمیں نظر نہیں آرہی ہیں۔ اگر وہ 1987میں بھارت کے جارحانہ عزائم کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دیکر نہ رکواتا تو اس وقت اور اس کے بعد دونوں میں متعدد مرتبہ روایتی جنگ ہو چکی ہوتی
جس میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن جاتے ان کی وجہ سے جہاں پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہوا وہاں جنگوں کے امکانات بھی کم ہوئے کیونکہ اس طاقت کے حاصل کرنے کے بعد وار انڈسٹری کو بہت بڑا نقصان پہنچا جنہوں نے ان دو ممالک کو اپنا اسلحہ منڈی بنایا ہوا تھا ۔ اور وہ اکثر ان کو اس لئے لڑاتے تھے ۔ کہ ان کا اسلحہ فروخت ہو وہ سلسلہ بھی بند ہوگیا ۔جس کے بعد دونوں ممالک کا بجٹ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا شروع ہوا ۔ حکومت کو اس عہد کے اختتام پر قومی سوگ کا اعلان کرتے ہوئے اپنے تمام سفارت خانوں کو تعزیتی کتاب رکھنی چاہیے ۔ جس سے دوست دشمن کا پتہ چلے گا ۔ اس تاریخ ساز عہد کے اختتام پر دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ پاک مرحوم کے درجات بلند تر فرما ئے اور جن لوگوں نے ان کو تکلیف دی ان کو عبرت کا نشان اس دنیا میں بنادے ۔ آمین