منشیات کی لعنت اور معاشرے کی ذمہ داری 139

ڈی پی او ٹوبہ ٹیک سنگھ یا وائسرائے کی تبدیلی اور پروٹوکول کلچر

ڈی پی او ٹوبہ ٹیک سنگھ یا وائسرائے کی تبدیلی اور پروٹوکول کلچر

تحریر: اکرم عامر
فون: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100

پروٹوکول کلچر ایک ایسی لت ہے جس کے نشہ کا ہر سرمایہ دار، جاگیر دار، وڈیرہ، سیاستدان، بیورو کریٹ حتی کہ ہر وہ شخص جو معاشرے میں معمولی حیثیت رکھتا ہے کا شکار ہیں، ماضی کی حکومتوں کی طرح کپتان بھی برسر اقتدار آنے سے پہلے دعوی کیا کرتے تھے کہ وہ بر سر اقتدار آ کر ملک سے پروٹوکول کلچر کا خاتمہ کریں گے، لیکن ایسا نہ ہو سکا؟ کپتان سمیت ملک کا ہر سیاستدان خواہ اس کا تعلق اپوزیشن یا حکومت سے ہے، بیورو کریٹ، سرمایہ دار، جاگیر دار، ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق پروٹوکول استعمال کر رہا ہے، سرکاری مشینری کے پروٹوکول پر سالانہ کروڑوں نہیں اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں،

اسی طرح کی ایک مثال گزشتہ دنوں ڈی پی او ٹوبہ ٹیک سنگھ رانا عمر فاروق کے تبادلے پر دیکھنے میں آئی، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ برصغیرمیںانگریز کا راج تو ختم ہو چکا ہے لیکن اس کے خیالات کی باقیات اب بھی معاشرے میں موجود ہیں، انگریز راج کے خاتمے کو کئی صدیاں بیت چکی ہیں اور پاکستان کو آزاد ہوئے بھی 74 سال کے لگ بھگ ہونے کو ہیں، مگر اس کے باوجود ملک کی بیورو کریسی میں انگریزدور کے اثرات اب بھی باقی ہیں، ڈی پی او رانا عمر فاروق نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ڈی پی او شپ کے دوران ایک عمر رسیدہ خاتون کے قدموں میں بیٹھ کر اس کا مسئلہ سنا اور ان کے ماتحتوں نے اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی، جس پر ڈی پی او موصوف کو محکمہ پولیس کے علاوہ عوام میں بھی شہرت ملی،

موصوف کا تبادلہ اب ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بطور وزیر اعلی کے سٹاف آفیسر کیا گیا ہے تو انہیں مصنوعی شاہی پروٹوکول کے ذریعے رخصت کیا گیا، ڈی پی او موصوف سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے عوام کی محبت کتنی تھی یہ بات الگ ہے، لیکن جس طرح انہیں الوداع کیا گیا یہ بھی ایک عجب کہانی ہے، ایسے لگ رہا تھا کہ ڈی پی او کی تبدیلی نہیں بلکہ کسی وائسرائے کو تبدیل کیا گیا ہے، جس نے عوام کیلئے بے پناہ خدمات سر انجام دی ہوں اور ان کے جانے پر عوام ان سے بے پناہ محبت کا اظہار کر رہے ہوں۔ ذرائع کہتے ہیں کہ ڈی پی او موصوف نے اپنی تبدیلی کے بعد ضلع بھر کے پولیس افسران کو حکم صادر کرتے ہوئے ان کی ڈیوٹیاں لگائیں

کہ ان کو الوداع کرنے کیلئے پروٹوکول کیلئے گاڑیوں اور عوام کا بندوبست کیا جائے، پولیس افسران نے ’’مرتے کیا نہ کرتے‘‘ کے مصداق اپنے آقا کا حکم بجا لاتے ہوئے ان کی خواہش سے بھی بڑھ کر پروٹوکول کے انتظامات کیے، اور گھوڑوں والی بگھی کا بندوبست کر کے شہر بھر کے پھول فروشوں سے پھول حاصل کیے گئے اور شہر کا چکر لگانے کے دوران ڈی پی او موصوف کی بگھی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں، ان سارے مناظر کو حکام بالا تک پہنچانے کیلئے خوش آمدی میڈیا کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس طرح کی منظر کشی کی گئی کہ جس طرح آج تک ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رانا عمر فاروق جیسا کوئی ایماندار اور قابل افسر نہیں آ سکا؟اور یہ بھی تاثر دیا گیا کہ موصوف میں جتنی خوبیاں تھیں وہ کسی اور ڈی پی او میں نہیں،

ڈی پی او آفس سے جاتے وقت دفتر سے لے کر پولیس لائن تک بگھی پر بٹھا کر راستہ میں جگہ جگہ گل پاشی کی گئی، اس عمل میں سرکاری پولیس افسران پیش پیش تھے، اور ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ڈی پی او موصوف سے یہ اظہار محبت عوام کر رہی ہے، دوسرے روز پھر ڈی پی او موصوف کو موٹر وے کے راستے لاہور روانہ ہونا تھا، تو بگھی کو پہلے رجانہ چوک کے قریب پہنچایا گیا جہاں ضلع بھر کے پولیس افسران بالخصوص ایس ایچ اوز اور انکے ماتحت ملازمین کی بھاری نفری رجانہ چوک میں ڈی پی او موصوف کو پروٹوکول دینے کیلئے موجود تھی، جہاں ایک بار پھر پولیس ملازمین نے ان پر گل پاشی کی اور ظاہر یہ کیا گیا

کہ یہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے عوام کا ڈی پی او سے اظہار محبت ہے۔ ڈی پی او موصوف نے اس موقع پر ٹوبہ ٹیک سنگھ کی عوام کی محبتوں کی خصوصیت کا خوب ذکر کیا، ایسا ویسے تو یہ بہت اچھا منظر تھا، اگر واقعی یہ اظہار محبت عوام کی طرف سے ہوتا؟ لیکن یہ تو صاحب بہادر کو پروٹوکول دینے کیلئے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی پولیس کی جانب سے کیا گیا انتظام تھا، جسے عوامی ظاہر کر کے صاحب بہادر اور مجاز افسران کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی، توجہ طلب بات یہ ہے کہ ڈی پی او موصوف نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی عوام کیلئے ایسا کون سا کارنامہ سر انجام دیا تھا کہ وہ عوام کے دلوں میں اتنا گھر کر گئے،

ذرائے کہتے ہیں کہ موصوف اپنی تعیناتی کے دوران عوام کو نہ تو کوئی مناسب ریلیف دے سکے، اور نہ ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جرائم کا خاتمہ کیا جا سکا، موصوف بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اپنی تعیناتی کے دوران روایتی افسر والا کردار ادا کرتے رہے، تبادلہ پر اتنا پروٹوکول پولیس کی جانب سے دیا جانا سمجھ سے بالا تر ہے، جس پر ٹوبہ ٹیک سنگھ کی عوام بھی ششدر اور حیران ہیں کہ تبدیلی سرکار کے دعویدار کپتان کی حکومت میں ایسا شاہانہ پروٹوکول ایک ڈی پی او کو دے کر لاکھوں روپے خرچ کیے گئے، کیا وہ پولیس افسران نے اپنی جیب سے خرچ کیے یا سرکاری خزانہ سے یہ ایک الگ سوال ہے۔
کپتان جی آپ تو اقتدار میں آنے سے پہلے نعرہ لگایا تھا کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئے گی تو ملک سے پروٹوکول کلچر کا خاتمہ کیا جائے گا، لیکن تین سال سے زائد عرصہ میں ایسا نہ ہو سکا، بلکہ پچھلی حکومتوں کی نسبت موجودہ دور میں وزراء اور بیورو کریسی کے پروٹوکول میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی ایک مثال حالیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تبدیل ہونے والے ڈی پی او رانا عمر فاروق کو دیا جانے والا شاہانہ پروٹوکول ہے، کپتان جی اس طرح گریڈ 18 کے ایک افسرکو تبادلے پر رخصت کرنے کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرنے سے ملک ریاست مدینہ نہیں بنے گا، ریاست مدینہ بننے کی بجائے مقروض در مقروض ہو گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملہ کی تحقیقات کرائی جائیں کہ ڈی پی او ٹوبہ کے تبادلہ پر شاہانہ پروٹوکول پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والے کون تھے اور ایسا کیوں کیا گیا؟ ایسے پولیس ملازمین کا تعین کر کے ان کیخلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے تو آئندہ تبدیل یا تعینات ہونے والے افسران کو پروٹوکول میں کمی واقع ہو جائے گی اور ملک ریاست مدینہ بن سکے گا، اگر یہی روایت برقرار رہی اور سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے پروٹوکول پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہوتے رہے تو پھر کبھی بھی ملک نہ ترقی کر سکے گا اور نہ ہی آپ کے دعوی کے مطابق ریاست مدینہ بن سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں