ماہِ ربیع الاوّل اورمیلاد کمیٹیاں
رنگِ نوا
تحریر:نوید ملک
گھروں میں کوئی میٹھی چیز پکائی جاتی تھی اور ہمسائیوں میں تقسیم کی جاتی تھی۔ہمسائے بھی صرف ایک دن کے لیے نہیں ہوتے تھے بلکہ سارا سال ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے تھے۔محبت پیشانیوں پر نظر آتی تھی، بتانا یا دکھانا نہیں پڑتا تھا۔یہ میں اپنے بچپن کے دنوں کی بات کر رہا ہوں۔90 کی دہائی میں اور آج کے حالات میں بہت فرق آ چکا ہے۔
آج کل ماہِ ربیع الاول کو زیادہ اچھے طریقے سے منایا جاتا ہے۔لوگ محبت کا اظہار جتنی شدت سے کر سکتے ہیں، کرتے ہیں۔بچے، بوڑھے ، جوان سب ہی عقیدت سے سرشار نظر آتے ہیں۔مختلف آبادیوں اور محلوں کی مساجد میں سجاوٹ کا مقابلہ بھی ہوتا ہے، سڑکوں، گھروں اور بازاروں میں جگہ جگہ قمقمے روشن کیے جاتے ہیں۔محلے دار ناراض بھی ہوں، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ بھی رکھیں، مساجد آباد نہ بھی کریں، پھر بھی ایک ہی ریلی میں شامل ہو کر یکجہتی کی عملی مثال دیتے ہیں۔کچھ والدین اپنے بچوں کوماہِ ربیع الاول منانے کا درست فلسفہ بھی سمجھاتے ہیں۔یہ مہینہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگیاں اُس ہستی کے لیے وقف کرد یں جس کے بارے میں الحشر، آیت7 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
”اور جو کچھ تمہیں رسول ﷺ دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو، اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے”کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ جن باتوں سے ہمارے پیارے نبیﷺ نے روکا، ہم وہ کام نہیں کر رہے۔اپنے کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں اعمال کے قمقمے بھی روشن کرنے چاہییں۔مختلف شعبوں میں آگاہی پروگرامز کروائے جاتے ہیں مگر اس عظیم دن کے حوالے سے ہم اپنے بچوں کو حقیقی مقاصد سے روشناس نہیں کرواتے۔بڑے شہروں میں کہیں کہیں مثبت رجحانات دیکھے جا سکتے ہیں
مگر دیہی علاقوں میں اسے بطور دن ہی کے منایا جاتا ہے۔میلاد کمیٹیوں کو چاہیے کہ بچوں کو مختلف گروپس میں تقسیم کر کے مختلف ذمہ داریاں دیں اور ساتھ ہی اصل ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائیں اور پھر سارا سال ان ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی تلقین کریں۔میرے کالم کی کسی سطر میں کوئی لفظ بھی کسی پر تنقید کے لیے نہیں باندھا گیا۔ میں تو بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ مٹھائی تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ میٹھے لہجے بھی تقسیم کیے جائیں، حقوق و فرائض کے جھنڈوں کو سینوں میں لہرایا جائے،
بدنی و مالی عبادتوں کے قمقموں کو بھی ہمیشہ کے لیے روشن کیے جائیں، آخرت کی تیاری کے لیے کمیٹی جمع کی جائے ، محبتوں کے چراغ روشن کیے جائیں، حسنِ اخلاق کی اگربتیاں جلائی جائیں۔اس حوالے سے میلاد کمیٹیاں مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ جذبے کو عمل و کردار میں پرویا جائے اور ایسے راستے ہموار کیے جائیں جن پر چل کر نسلِ نو فلاح پا سکے۔آخر میں ایک نعت
حسین سفر کیا میں نے ورق سجاتے ہوئے
مدینہ ذہن میں رکھا قلم چلاتے ہوئے
وہ کون سی مری خواہش تھی جو نہ پوری ہوئی
گلِے تو مر ہی گئے تھے زباں پہ آتے ہوئے
بہشت کے کئی منظر کھُلے نگاہوں پر
جہاں جہاں سے میں گزرا نظر جھکاتے ہوئے
نہ جانے عظمتیں کیا کیا ہمیں عطا ہوئی تھیں
جبیں پہ خاک ِ درِ مصطفیؐ لگاتے ہوئے
نوید عکس مقدر کا جھلملا رہا تھا
چلا تھا رستے کو میں آئنہ بناتے ہوئے