ماں چلی گئی 186

ایک خوفناک ایجادکی کہانی

ایک خوفناک ایجادکی کہانی

جمہورکی آواز ایم
تحریر:سرورصدیقی

ایجادات تو بنی نوع انسانیت کی ترقی ،خوشحالی اور آسانی کے لئے کی گئی ہیں لیکن کچھ ایجادات انتہائی خوفناک ثابت ہوئیں انسانی تاریخ میں بارود کی ایجاد نے منظرنامہ یکسر تبدیل کر ڈالا چین میں اس کی دریافت کسی حادثے سے کم نہ تھی۔ قصے اور کہانیوںکے برعکس اب اسے صرف آتش بازی کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ جب سے اسے دریافت کیا گیا اسے فوجی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ بعد میں اس خفیہ ہتھیار کے بارے میں باقی دنیا کو بھی پتہ چل گیا ایک حوف و ہراس پھیل گیا بارودکی ایجاد کوایک اتفاق کہاجاسکتاہے دراصل چین کے قدیم کیمیا دان صدیوں تک ایک ایسا جادوئی مائع دریافت کرنے میں لگے رہے جسے پی کر انسان غیر فانی ہوجائے۔ ایک ایسا اہم عنصر جو ایسی دوا میں استعمال ہوتا تھا جو ناکام ہوچکی تھی ،

پوٹاشیم نائٹریٹ تھا۔ 850 ء صدی میں سانگ حکومتی سلسلے کے دوران چین کے ایک کیمیادان نے(جس کا نام تاریخ کے صفحات سے شاید معدوم ہوچکا ہے)پوٹاشیم نائٹریٹ کے75 حصوں کو 15فیصد تارکول اور دس حصے سلفر کے ساتھ ملایا۔ یہ آمیزہ تیار ہوگیا اور بعد میں اس سے ایک دھماکہ ہوا اور بجلی جیسی چمک پیدا ہوئی۔ جب اس آگ کے ایک شعلے کے پاس لے جایا گیا۔ اس سے کیا ہوا کہ کیمیا دانوں کے ہاتھ جل گئے اور وہ مکان جس میں یہ سب کام کررہے تھے سب سامان جل کر راکھ ہوگیا بری مشکل سے اس کیمیادان کی جان بچی اس آمیزے کی تبا ہ کاریوںنے اسے چونکاکررکھ دیا اس کے شیطانی ذہن نے سوچا اگر اس پر مزید مؤثرانداز میں کام کیا جائے تو چین دنیا میں عسکری برتری حاصل کرسکتاہے ۔ مغرب کی تاریخ کی کتابوں میں کئی برسوں سے یہ لکھا ہوا ہے کہ چینیوں نے اس ایجاد کو صرف آتش بازی کیلئے استعمال کیا لیکن یہ درست نہیں ہے۔

تاریخ بتاتی ہے سانگ حکومت کی فوجوں نے 904 ء میں بارود سے بنی ہوئی چیزوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کیا۔ اور یہ دشمن تھے منگول۔ ان ہتھیاروں میں اڑتی ہوئی آگ، ایک تیرجس کے ساتھ بارود کی جلتی ہوئی ٹیوب تھی، شامل تھے۔ ’’اڑتی ہوئی آگ کے تیر چھوٹے راکٹوں کی مانند تھے جو خوف اور دہشت کی علامت بن گئے تھے۔ اس سے یہ لگتا تھا کہ یہ کوئی ہیبت ناک جادو ہے جس سے مخالف قوتیں نبرد آزما ہیں اور اس کی طاقت بارود تھا۔ سانگ دور میں بارودجن اور مقاصد کیلئے استعمال کیاجاتا تھا ان میں ابتدائی دور کے ہینڈ گرنیڈز، زہریلی گیس کے شیل اور بارودی سرنگیں شامل ہیں۔

توپخانے کی ابتدائی شکلوں میں راکٹ ٹیوبیں شامل ہیں۔ میکگل یونیورسٹی کے پروفیسر رابن بیٹس کا کہنا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے توپ کا مظاہرہ سانگ دور کے چین میں ہوا۔ اس کا اظہار 1127 ء کی ایک پینٹنگ کے ذریعے ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بارود چین سے باہر کیسے منتقل ہوا۔ گیارہویں صدی کے آخر تک سانگ حکومت اس بات پر سخت تشویش میں مبتلا تھی کہ بارود ٹیکنالوجی دوسرے ملکوں کو کیسے منتقل ہورہی ہے۔ 1076 ء میں سالٹ پیٹر(پوٹاشیم نائٹریٹ)کی غیرملکیوں کو فروخت بند کردی گئی۔ باایں ہمہ اس معجزاتی مواد کے بارے میں ہندوستان کو بھی علم ہوگیا اور وہاں ضروری اطلاعات پہنچ گئیں۔ اس کے علاوہ مشرق وسطی اور یورپ تک اس کے بارے میں اطلاعات پہنچ گئیں۔

1267 ء میں ایک یورپی مصنف نے بارود کا حوالہ دیا اور 1280 ء تک اس دھماکہ خیز مواد کے ابتدائی نسخے مغرب میں شائع ہوگئے اور اس طرح چین کا یہ راز افشا ہوگیا۔ گذشتہ کئی صدیوں کے دوران چین کی ایجادات نے انسانی ثقافت پر گہرا ثر ڈالا۔ کاغذ ، مقناطیسی پرکار اور ریشم دنیا بھر میں عام ہوگئے۔ لیکن ان میں سے کسی ایجاد نے دنیا پر اتنا اثر نہیں ڈالا جتنا کہ بارود نے ایک خوف ، ایک ہیبت،ایک سنسنی پھیلادی۔ یہ اثر اچھا تھا یا برا۔ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ خوف ناک ایجاد اب تلک ہزاروں بلکہ کروڑوں انسانوںکی جان لے چکی ہے لیکن اس کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس ایجاد سے بارود سے پہاڑوں کواڑایا جانے لگا جس سے مائن اور پتھرکا کام کرنے میں بے حد آسانی میسر آئی۔ بارود کو ’’بلیک بائوڈر بھی کہا جاتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے جدید دھواں نہ دینے والے پائوڈر سے الگ کیا جاسکے۔ پھر بارود کو توپ خانے کیلئے وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا نے لگا جس سے انسان کی تباہی وبربادی اور نفسیاتی برتری میں اضافہ ہوا یعنی جو ایجاد بنی نوع انسانیت کی ترقی ،خوشحالی اور آسانی کے لئے ہونا چاہیے تھی وہ تباہی و بربادی کا سمبل بن گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ مائننگ اور سول انجینئرنگ کے منصوبوں میں بھی بارود کا استعمال ہوتا تھا۔ یہ انیسویں صدی تک جاری رہا جب دیگر طاقتور آتش گیر مادوں کا استعمال شروع ہوگیا۔ اب بارود کو اب جدید ہتھیاروں میں استعمال نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اسے اب صنعتی مقاصد کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے

کیونکہ اب اس کے متبادل آتش گیر مواد بہت سے موجود ہیں جیسے کہ ڈائنا میٹ اور امونیم نائٹریٹ لیکن آج جو بھی متبادل آتش گیرمیٹریل موجود ہے اس کی بنیاد بارود ہی کو کہاجاسکتاہے اس لحاظ سے یہ اسے تباہی وبربادی کی ایجادات کا باوا آدم کہاجاسکتاہے۔ آج بارود سے بنا آتشیں اسلحہ موجود ہے۔ اب اسے زیادہ ترشکار اور ہدف کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیاجاتا ہے۔ اب اس پر غور کرنا بھی اہم ہے کہ سالٹ پیٹر(پوٹاشیم نائٹریٹ)کے بارے میں چینیوں کو کب معلوم ہوا؟یہ تحقیق سامنے آئی کہ اس کے بارے میں پہلی صدی عیسوی میں پتہ چلا اور شروع شروع میں یہ چین کے صوبوں سکوان، شانکسی اور شان ڈونگ میں پایاجاتا تھا۔

ایک چینی کیمیادان نے492 ء میں لکھا کہ پوٹاشیم نائٹریٹ ایک شمع کی طرح جلتا ہے اور یہ اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ یہ دوسرے غیرنامیاتی نمکیات سے مختلف ہے۔ اس تحقیق نے کیمیا دانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ چیزوں کے خالص ہونے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اس حوالے سے نئی تکنیکوں کے بارے میں علم ہوا۔ بہرحال بارود کی ایجاد کے بعد جو نئی نئی چیزیں سامنے آئیں اس نے سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دیا۔ بارود کی مدد سے کئی ہتھیار بنا ئے گئے

جن میں راکٹ، بم اور بارودی سرنگیں شامل ہیں۔ اب تو امریکہ، جرمنی،بھارت،فرانس،پاکستان،روس نے بارود ٹیکنالوجی پر بہت سے تجربات کرکے اس سے مزید دفاعی ایجادات کو بیش بہا ترقی دی ہے ماہرین کا تو یہ بھی کہناہے کہ ایٹم بم ٹیکنالوجی بھی بارودکی ہی مرہون ِ منت ہے اگر یہ ایجادنہ ہوتا تو شاید انسان آج ایک دوسرے سے برتری کے نفسیاتی جنون میں مبتلا نہ ہوتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں