سیاسی و طاقتور قوتوں کے درمیان نئے دور کا آغاز معاہدے کے تحت ہونا چاہے 168

سیاسی و طاقتور قوتوں کے درمیان نئے دور کا آغاز معاہدے کے تحت ہونا چاہے

سیاسی و طاقتور قوتوں کے درمیان نئے دور کا آغاز معاہدے کے تحت ہونا چاہے

آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ

اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ملکی تاریخ میں کوئی بھی حکومت تحریکوں کی وجہ سے نہیں گئی۔ اجس کی زندہ مثالیں ماضی قریب میں لانگ مارچ ،دھرنے ہیں ۔جس کی وجہ سے حکومتیں نہیں گئی ۔ تاہم یہ مثال ضرور موجود ہے کہ ایوب خان جیسا آمر مہنگائی کے بیانیے کی بھینٹ ضرور چڑھا ۔یعنی اس وقت یہ کہا جائے کے مہنگائی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے جو احتجاج کا اعلان کیا ہے وہ ایک مقبول بیانیہ ہے اور یہ ہر صورت کیش ہوگا ۔اسی تناظر میں ماضی قریب میں مسلم لیگ نواز اور جمعیت علمائے اسلام سمیت پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ملک کی ابتر ہوتی ہوئی معاشی صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں،

نے اب اپنا رویہ تبدیل کر لیا ہے،پی ڈی ایم اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروعہوچکا ہے۔جس کے پہلے مرحلے میں جہاں ملک کے مختلف شہروں میں کامیاب جلسے اور احتجاج ہوا ، وہاں ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے ایک نا ممکن مطالبے کو سامنے لاکر اسلام آباد کا گھیراو کرنے کا اعلان کیا ہوا جس کے لئے ریلیوں کا انعقاد جس میں خون و کشت بھی ہوا ۔یعنی خاموشی کے بعد اپوزیشن کی مخصوص جماعتوں کی حکمت عملی میں تبدیلی بلاوجہ نہیں ہے۔

کیونکہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے معاملے کو لے کر حکومت کا یہ بیانیہ کہ فوج اور حکومت دونوں ایک پیج ہیں، کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیاہے ۔ایے میں اگر یہ کہا جائے کہ طاقتور قوتوں کی جانب سے حکمرانی کے قابل رہنماوں کو تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ہے ۔ تو بے جا نہ ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنا و روز بروز بڑھ رہا ہے۔ وہیں دوسری طرف حکومت کی جانب سے بجلی، پیٹرولیم کی مصنوعات اور اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کیونکہ اوگرا کی جانب سے پیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے سے زائد کا اضافہ تجویز کرنے کے باوجود حکومت کی جانب سے تقریبا دس روپے یعنی دوگنا اضافہ کر نا یہ بات آشکار کرتا ہے

کہ حکمران طبقے میں موجود طاقتورطبقے کے لوگ ایسا کروا رہے ہیں ، تاکہ جلد صورتحال واضح ہو جائے ۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے ایک اہم شخصیت کا کسی کا نام لئے بغیر یہ بیان کہ نواز شریف سے رابطے تیز ہو ئے ہیں، کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ دیکھا جائے تو بیک ڈور ڈیپلومیسی کافی عرصہ پہلے شروع ہے جس کی مثال یہ کہ جب کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نوازکو کامیابی ملی تو اس کا بات اشارہ تھا کہ تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے ۔یہی نہیں اس وقت دیوار پر جو تحریر نظر آرہی ہے ، وہ بلوچستان میں وزیر اعلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہے۔ وزیر اعلی جام کمال کے خلاف اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر وفاقی حکومت کا جانا بھی ٹھہر جائے گا کیونکہ صوبے میں برسر اقتدار بلوچستان عوامی پارٹی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اس جماعت کو بنانے میں صرف ایک افیسر کا ہاتھ تھا۔

حالات و واقعات نے ایک مرتبہ پھر بتا دیا ہے کہ پاکستان کو چلانا کسی ایک قوت کے بس کا کام نہیں ہے ۔ یہ غلط فہمی ماضی میں بھی دور ہوئی اور اب بھی دور ہو چکی ہے ۔ مگر دنیا میں آمرانہ سوچ رکھنے والوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ نیا نہیں سوچھنے کی بجائے ماضی میں کئے ہوئے تجربات بار بار ناکام ہونے کے باوجود دھراتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہر بار ناکامی کا شکارہوتے رہے ہیں ۔ جہاں تک ملک کی سیاسی قیادت کا تعلق ہے تو وہ جب بھی انہوں نے کچھ نیا کر نے کی کوشش کی ہے وہ گلے میں پڑ اہے ۔ جس کی وجہ سے جمہوری عمل متاثر ہو تا ہے، جس کا اثر عوام کو عشروں تک برداشت کرنا پڑاہے ۔

اب جبکہ ایک نئے دور کا اغاز ہونے جارہا ہے ۔ایسے میں سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ کسی بھی ایسے معاہدے کے لئے آمادہ نہ ہو جس کی وجہ سے کل پھر آج جیسی صورتحال پیدا ہو ۔ سیاسی قیادت کو چاہیے، کہ ہر ایک کے حدود کا تعین باہمی مشاورت سے آئین میں کر کے آگے بڑھے تو زیادہ بہتر اورمناسب ہوگا ۔ بصورت دیگر جلد پھر ایسا ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی سامنا آج کرنا پڑ رہا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں