منشیات کی لعنت اور معاشرے کی ذمہ داری 211

منشیات کی لعنت اور معاشرے کی ذمہ داری

منشیات کی لعنت اور معاشرے کی ذمہ داری

تحریر اکرم عامر سرگودھا
فون…..،03008600610
وٹس ایپ،03063241100

ملک میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال نے اس بات کا واضح الارم بجا دیا ہے کہ اگر اس لعنت پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے سالوں میں منشیات کی لعنت معاشرے میں کینسر کے مرض کی طرح سراعت کر جائے گی، اور ہرگھر کے کسی نہ کسی فرد کو لپیٹ میں لے لے گی، منشیات کے استعمال کی وجہ سے ملک میں شرح اموات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو جائے گا؟ اس لئے حالات اور وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت اور معاشرہ اپنی ذمہ داری پوری کرے، حکومتی سطح پر منشیات فروشوں کیلئے کڑی سزائوں کا اعلان کیا جائے اور قانون میں ترمیم کر کے سزائوں میں اضافہ کیا جا ئے تا کہ کڑی سزا ملنے کی صورت میں منشیات فروشی کی روک تھام ہو سکے؟
کپتان نے اقتدار سنبھال کر کہا تھا کہ جس علاقے میں کوئی منشیات فروخت کرتا پکڑا گیا تو اس علاقے کے ایس ایچ او کیخلاف کارروائی ہو گی، مگر ایسا نہ ہو سکا، اگر ایسا ہو جاتا تو یقینا پاکستان میں منشیات کی لعنت کے خاتمہ میں مدد ملتی، لیکن منشیات کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے صرف فوٹو سیشن اور تقاریب تک محدود ہیں، تھوڑا عرصہ قبل تک پاکستان میں منشیات سے ایک محدود طبقہ متاثر تھا، لیکن اب یہ لعنت کالجوں، یونیورسٹیوں، حتیٰ کہ مڈل، ہائی سکولوں کے طلباء و طالبات کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز میں رہنے والے طلباء و طالبات میں منشیات کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے؟ اس طرح منشیات کی لعنت مستقبل کے معماروں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر رہی ہے۔

وطن و قوم کے دشمن منشیات فروشوں نے طلباء و طالبات کو منشیات کی لعنت میں مبتلاء کرنے کیلئے باقاعدہ گروہ تشکیل دے رکھے ہیں جو تعلیمی اداروں اور ہاسٹل کے عملہ سے ملی بھگت کر کے نسل نو کو بند کمروں میں منشیات فراہم کر کے ان کی تباہی کا سامان پیدا کر رہے ہیں؟ 2020 کے سروے کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے 5 فیصد افراد منشیات کی لت میں مبتلاء ہیں اور یہ تعداد آئے روز بڑھتی جا رہی ہے، اس وقت دنیا میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 26 کروڑ کے لگ بھگ ہے، جبکہ 30 ستمبر 2021 تک پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 81 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، ہر سال تقریباً 10 فیصد تک منشیات کے عادی افراد کا معاشرہ میں اضافہ ہو رہا ہے، منشیات کے عادی افراد میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے

کہ جو مرد، خواتین یا نوجوان اس بیماری میں مبتلاء ہو جاتے ہیں ان کی صحت مند معاشرے میں واپسی آٹے میں نمک کے برابر ہے، کیونکہ سرکاری سطح پر ڈسٹرکٹ اور تحصیلوں کے ہسپتالوں میں منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجہ کے لئے سہولتیں نا پید ہیں جبکہ نشہ کی لت میں مبتلاء ہونے والے 75 سے 80 فیصد افراد غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، جو پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے انسداد منشیات سنٹرز سے علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس طرح غریب طبقہ سے تعلق رکنے والے منشیات کے مریض سسک سسک کر گلیوں، چوراہوں، سڑکوں پر دم توڑ دیتے ہیں، پھر ان میں سے اکثر کی تو شناخت بھی نہیں ہو پاتی اور انہیں لا وارث قرار دے کر پولیس متعلقہ بلدیہ یا ٹائون کمیٹی کی مدد سے دفن کر دیتی ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر جواد محمد شجاعت کا کہنا ہے کہ منشیات معاشرے کیلئے زہر قاتل ہے جس کا بڑھتا ہوا رجحان معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، منشیات کے مسلسل استعمال سے انسان مختلف قسم کی جسمانی و ذہنی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، منشیات کے عادی مریض کا مزاج و قوت مدافعت و شخصیت متاثر ہو جاتی ہے، اس کے دماغ کی کارکردگی سست روی کا شکار ہو جاتی ہے، اور جسم میں ناقابل برداشت تکلیف محسوس ہوتی ہے، منشیات کی لت میں مبتلاء مریض آنت و پیٹ کی بیماریوں میں مبتلاء ہو جاتے ہیں، اور ان میں دل کے امراض کے ساتھ ساتھ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلاء ہونے کے چانس بھی بڑھ جاتے ہیں،

افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے نے منشیات کے عادی مختلف مریضوں کے حوالے سے تحقیق میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی، حالانکہ معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس بیماری کی زد میں آ چکا ہے، دنیا میں اس وقت صنفی اعتبار سے 66 فیصد مرد 19 فیصد خواتین اور 15 فیصد نو عمر بچے منشیات کی لت میں مبتلاء ہیں، جبکہ 75 فیصد منشیات کے عادی افراد کی عمریں 18 سے 35 سال کے لگ بھگ ہیں، ہر سال منشیات کے عادی افراد میں سے 4 سے 6 فیصد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، اگر منشیات کے استعمال میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو آئندہ چند سالوں میں شرح اموات بڑھ کر 6 سے 10 فیصد تک چلی جائے گی۔
وطن عزیز میں زیادہ تر آئس ، چرس، بھنگ، افیون، گانجا، حشیش، ہیروئن، کوکین، ماری جوانا کا نشہ کیا جا رہا ہے، جبکہ شیشہ کیمیکل اور شراب کا استعمال بھی کثرت سے ہو رہا ہے، نشہ کے عادی افراد میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تین اقسام ہیں جن میں پہلی قسم اعصابی تنائو کو کم کرنے کیلئے نیند یا سکون کی گولیاں استعمال کرنے والوں کی ہے، جس کے استعمال سے اعصاب آہستہ آہستہ کمزور ہو جاتے ہیں، جبکہ دوسری قسم کے استعمال سے لوگوں میں چستی اور پھرتی آ جاتی ہے، یہ قسم بہت سی جنسی ادویات میں بھی استعمال ہوتی ہے، اس قسم کی منشیات کے عادی افراد میں دل کا مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے،

اور اس نشہ کو ترک کرنے پر خطرناک نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، نشہ کی تیسری قسم ابتداء میں غم مٹانے کیلئے استعمال کرنے والوں کی ہے لیکن بعد میں اسے استعمال کرنے والے مستقل عادی ہو جاتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز کو اپنے نشہ سے کم تر سمجھتے ہیں، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور یوں یہ بیمار ذہن لوگ قبر کی دہلیز تک پہنچ جاتے ہیں۔ منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ ملک میں منشیات فروشوں کیلئے سزائوں کا کم ہونا ہے، کیونکہ ملک میں قانون اس حد تک کمزور ہے کہ بڑے بڑے منشیات فروش پکڑے جانے پر کچھ عرصہ بعد ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں،

کئی بار تو پکڑی جانے والی منشیات تجزیہ لیبارٹری کیمیکل یا فیل قرار دے دیتی ہے۔ جس سے انسانی جانوں سے کھیلنے والے سمگلر باعزت بری ہو جاتے ہیں، اور پھر اپنے مکروہ دھندے میں لگ جاتے ہیں۔جس طرح منشیات کے استعمال کے تدارک کے کئی طریقے ہیں اسی طرح اسے استعمال کرنے کے محرکات بھی بہت زیادہ ہیں، ان میں ایسا کوئی محرک نہیں جو اس مسئلے کی پوری تشریح کر سکے، جس ملک میں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں، اور لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں، بچے بھوک سے بلک رہے ہوں، تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے روزگار کی تلاش میں دربدر پھر رہے ہوں،

بنت حواء کو کوچہ بازار کی زینت تصور کیا جاتا ہو، جہاں خواہشیں، حسرتیں ہر کسی کے ذہن پر سوار ہوں وہاں منشیات کے استعمال کو روکنا کس طرح ممکن ہے؟یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات کے عادی لوگوں سے نفرت کی بجائے لوگوں میں منشیات سے نفرت کا شعور بیدار کیا جائے، منشیات کے عادی مریض تو در حقیقت محبت و خلوص کے مستحق ہوتے ہیں، ہم اپنے اچھے رویوں سے ان کی لڑکھڑاتی زندگی کے خلاف نبردآزما ہونے اور ان کے جینے کی نئی امنگ پیدا کر سکتے ہیں، اکثر نشہ کے عادی اس بری عادت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں، لیکن ان کی قوت مزاحمت دم توڑ چکی ہوتی ہے، یا وقت نکل چکا ہوتا ہے؟

اس لئے معاشرے کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو حوصلہ اور سہارا دیں تو یہ لوگ معاشرے کے کارآمد شہری بن سکتے ہیں، یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان کی ہمت بندھائی جائے، عالمی ادارے، ریاستیں، غیر سرکاری تنظیمیں اور رفاعی ادارے اپنے طور پر اس لعنت کے خاتمے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، لیکن راقم کی ذاتی رائے ہے کہ بہتر نتائج اس وقت تک سامنے نہیں آ سکتے جب تک ہر فرد انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے۔ یہاں حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ منشیات کی پیداوار بڑھا کر آمدن بڑھانے کی بجائے انسداد منشیات ایکٹ میں ترمیم کر کے سزائوں میں اضافہ کیا جائے اور ان پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے جبکہ منشیات کے استعمال میں مبتلاء مریضوں کے علاج معالجے کے لئے سرکاری سطح پر ہر تحصیل و ضلع کی سطح کے ہسپتالوں میں یونٹ قائم کیے جائیں جن میں تجربہ کار ماہر انسداد منشیات و ماہرین نفسیات تعینات کیے جائیں

پوری قوم کو ذمہ داری سمجھتے ہوئے منشیات جیسی لعنت کو معاشرے سے ختم کرنے کیلئے متحرک کردار ادا کرنا چاہیے، اگر ایسا نہ کیا جا سکا تو پھر آنے والے چند سالوںمیں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اس حد تک اضافہ ہو جائے گا کہ پھر اس لعنت پر قابو پانا مشکل ہو گا اور اس لت میں مبتلاء مریضوں کی لا تعداد لاشیں آئے روز چوکوں چوراہوں سے ملیں گی؟ اس لئے حالات اور وقت کا تقاضہ ہے کہ عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو منشیات فروشوں کی نشاندہی کریں، تا کہ منشیات کی فروخت کو روکا جا سکے اور عوام کو یہ بھی چاہئے کہ منشیات کے عادی مریضوں سے نفرت کرنے کی بجائے انہیں ان ہسپتالوں تک پہنچائیں، جہاں منشیات کے عادی مریضوں کا علاج معالجہ ہو رہا ہے۔ جب تک ہم من حیث القوم یہ فرض پورا نہیں کریں گے، منشیات کی لعنت ختم نہیں ہو سکے گی اور ہمارے پیارے اس لت میں مبتلاء ہو کر زندگیاں گنواتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں