آج کا موسم شاید زیادہ ہی خوشگوار تھا
آج کا موسم شاید زیادہ ہی خوشگوار تھا صبح کے وقت باد ِ نسیم اتنی لطیف اور سبک رفتار تھی کہ وہ چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے محل سے خاصا دور آن نکلے تھے’’ چلو اب واپس چلتے ہیں خلیفہ ہارون الرشید نے اپنی اہلیہ زبیدہ سے کہا اس نے ایک دل آویزمسکراہٹ کے ساتھ سراثبات میں ہلایااور واپسی کے لئے قدم اٹھایا ہی تھا کہ اسے کچھ دور کوئی ریت پر گھروندے بناتا دکھائی دیا اشتیاق سے وہ مڑی اور تیزی سے اس کی جانب بڑھنے لگی ’’تم کہاں جارہی ہوخلیفہ ہارون الرشید نے آہستگی سے بڑی محبت سے پکارا ملکہ زبیدہ نے خلیفہ کی آواز سنی نہیں یا پھر سنی ان سنی کرتی گھرائوندنے بنانے والے کے پاس جا پہچی
’’ارے یہ آپ ہیں ملکہ نے ریت پر بیٹھے بہلول ؒدانا کو دیکھ کر حیرت سے پوچھایہ آپ کیا کررہے ہیں؟’’میں جنت کے محل بناکر فروخت کررہاہوں بہلولؒ دانانے سر اٹھاکر ملکہ کو دیکھا پھر ایک شان ِ بے نیازی سے پوچھا آپ خریدیں گی؟’’ ضرور خریدوںگی ملکہ نے انتہائی محبت سے جواب دیا جنت کا محل کتنے میں بیچو گے؟ ’’میں تو100 سونے کے سکے لوں گا
بہلولؒ دانا نے بڑی سنجیدگی سے کہا ’’ یہ لو ملکہ نے اپنی عباء سے سونے کے سکے نکالے اور بہلول کی طرف بڑھا دئیے اتنے میں خلیفہ ہارون الرشید بھی ان کے پاس پہنچ گئے بہلولؒ نے کہا جناب میں تو جنت کے محل بناکر فروخت کررہاہوں آپ بھی ایک خرید لیں خلیفہ نے انکار میں سرہلایا
’’افسوس بہلولؒ نے اداس لہجے میں کہا آپ بھی خرید لیتے توکیا ہی اچھا ہوتا۔۔ خلیفہ مسکرایا اور وہاں سے چل دیا
رات کوخلیفہ ہارون الرشید نے ایک خواب دیکھا وہ بہت بڑے انتہائی خوبصورت باغ میں چہل قدمی کررہاہے وہاں کچھ سات منزلہ اونچے محل نظر آئے جن پر کمال مہارت سے نقاشی کی گئی تھی رنگین اسے بڑے انداز سے سجایا ہوا تھا محل کی ایک طرف دریا بہہ رہا تھا جس کا پانی صاف شفاف تھا طرح طرح کے پھل اور پھولدار درختوںکی ڈالیاں جھکی ہوئی تھیں اسے محل میں خدمت گاروں کی موجودگی کااحساس ہونے لگا وہ سوچنے لگا
یقینا یہ جگہ جنت ہے وہ تجسس سے کچھ دور آگے گیا تو ایک اورمحل نظرآیا جس کے دروازے پر اس کی اہلیہ ملکہ زبیدہ کا نام لکھا ہوا تھا وہ تیزی سے آگے بڑھا اور اندر داخل ہونا چا ہا نہ جانے کہاں سے کئی دربان اس کے راستے میں حائل ہوگئے ایک نے کہا آپ اس محل میں نہیں جاسکتے کیا آپ نے محل پر ملکہ زبیدہ کا نام لکھا نہیں دیکھا؟
اتنے میںخلیفہ ہارون الرشید کی آنکھ کھل گئی وہ دل ہی دل میں افسوس کرنے لگا کہ میں کیوں بہلولؓ کی بات نہ مانی۔۔اس نے صبح اپنے خواب کے بارے میں ملکہ کو بتایا زبیدہ بہت خوش ہوئی اور کسی کو بہلول لانے کے لئے بھیج دیا۔ جب بہلول آیا تو خلیفہ نے اسے دیکھتے ہی کہا ، ’’میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے دگنے سونے لے لو اور مجھے اپنا ایک محل بیچ دو ، جیسا کہ تم نے زبیدہ کو دیا تھا۔”
’’ملکہ نے بغیر دیکھے مجھ پر یقین کرکے سودا کیا تھا بہلول نے انکار کرتے ہوئے جواب دیا اور آپ دیکھ کر خریدنا چاہتے ہیں
اب وقت گذرگیاہے لیکن یاد کھو یقین والوںکا بیڑا پار ہوہی جاتاہےعباسی خلیفہ المنصور کی پوتی، خلیفہ ہارون الرشیدکی بیوی ملکہ زبیدہ بنت جعفر وہ انتہائی حساس،نرم خواورپرہیزگاخاتون تھیں ،اتنی دردمندکہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپ تڑپ اٹھتی ۔ملکہ زبیدہ کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہے لیکن یہ مشہور ہے کہ وہ خلیفہ ہارون الرشید سے کم از کم ایک سال چھوٹی تھی ان کے والد جعفر عباسی خلیفہ المہدی کے سوتیلے بھائی تھے۔ ان کا سلسلہ نسب زبیدہ بنت جعفر ابن المنصور ابن محمد ابن علی ابن عبد اللہ جاملتاہے زبیدہ ایک پالتو جانور کا نام ہے ، جسے اس کے دادا خلیفہ المنصور نے دیا ہے۔ اس نام کا ایک مطلب “چھوٹی مکھن کی گیند” بھی ہے کہاجاتاہے کہ پیدائش کے وقت زبیدہ کا اصل نام سکھینہ یا امت العزیز تھا
اس کی برسو ں سے آرزو تھی کہ وہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آئیں خاتم الانبیاء کے روضہ اظہرکی سنہری جالیوںسے لپٹ کر د رود سلام پیش کریں ملکہ زبیدہ اس اندازسے حجاز ِ مقدس پہنچیں کہ ان کے ہمراہ تلاوت ِقرآن حکیم کرتیں اور درود و سلام پڑھتی ایک سو خادمائیں تھیں جس نے بھی انہیں اس انداز سے دیکھا متاثرہوئے
بغیرنہ رہ سکا ملکہ زبیدہ یہاں آکرملول ہوگئیں جب اہل مکہ اور حْجاج کرام پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا ہیں انہیں سخت افسوس ہوا چنانچہ انہوں نے اسی وقت اپنے ذاتی اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے دیا کہاجاتاہے یہ ایک ایسا فقید المثال کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ملک اب نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے ماہر سے ماہر انجینئرز بلوائے گئے جنہوں نے حالات کا جائزہ لے کر مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ’
’ جبال طاد ‘‘ سے نہر نکالنے کا مشورہ دیا جسے انہوں نے منظورکرلیا جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا : آپ نے جس کام کا حکم دیا ہے اس کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں، کیونکہ اس کی تکمیل کیلئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، چٹانوں کو توڑنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا، سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنی پڑے گی ہو سکتا ہے
کچھ مزدور جاں بحق بھی ہو جائیں تب کہیں جا کر اس عظیم الشان منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہ سن کر ملکہ زبیدہ نے چیف انجینئر سے کہا : اس کام کو شروع کر دو، خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک سونے کا دینار خرچ آتا ہو۔اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران
حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں کھڑی تھیںاس وقت عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ ( 17,00,000 ) دینار خرچ ہوئے تھے جو آج کھربوں روپے بنتے ہیں ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ملکہ نے اخراجات کے حساب کی دستاویز کھول کر دیکھے بغیر دریا برد کر دیا اور روتے ہوئے سجدے میں گر کرکہنے لگیں : ’’ الٰہی! میں نے دنیا میں کوئی حساب کتاب نہیں لینا، تْو بھی مجھ سے قیامت کے دن کوئی حساب نہ لینا ‘‘
اس نے کوفہ اور مکہ کے درمیان صحرا کے نو سو میل کے فاصلے پر حاجی راستے کو بھی بہتر بنایا۔ سڑک ہموار اور بولڈاروں سے پاک ہوگئی تھی اور وہ وقفے وقفے سے پانی کے ذخیرے جمع کرتی تھی۔ پانی کے ٹینکوں نے طوفانی بارشوں کے اضافی بارش کا پانی بھی پکڑ لیا جو کبھی کبھار لوگوں کو ڈوب جاتا ہے۔ معروف سیاح ابن بطوطہ نے ملکہ زبیدہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ “اس سڑک کا ہر ذخیرہ ،
حوض یا کنواں جو مکہ سے بغداد کی طرف جاتا ہے اس کی کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے قائم ہوا جس سے لوگوںکو آمدورفت میں بہت آسانی ہوگئی خاص طور پر ابن ِ بطوطہ نے برکت المارجم اور القرضہ میں آبی ذخائر کا ذکر کیا ہے۔ ملکہ زبیدہ نے ہارون سے آزاد ، متعدد کاروباری منصوبوں میں اپنی جائیدادوں کا انتظام کرنے اور اپنی طرف سے کام کرنے کے لئے معاونین کے عملے کی خدمات حاصل کیں۔ اس کا نجی گھر بھی پْر آسائش طریقے سے زیر انتظام تھا۔ اس کا کھانا اس وقت عام طور پر استعمال ہونے
والی چرمی ٹرے کی بجائے سونے اور چاندی کی پلیٹوں پر پیش کیا جاتا تھا ، اور اس نے جواہرات سے سلے ہوئے سینڈل پہننے کے فیشن رجحان کو متعارف کرایا تھا۔ وہ چاندی ، آبنوس سے بنی ہوئی پالکی پر بھی جاتی تھی اور ریشم بڑے اہتمام کے ساتھ زیب ِ تن کیاکرتی تھی۔ ملکہ زبیدہ نے اس نے اپنے لئے ایک انتہائی خوبصورت محل تعمیرکروایا جس میں ایک بڑے کارپٹ ضیافت کا ہال تھا جس کی مدد سے ہاتھی دانت اور سونے سے بنے ستون تھے۔ قرآن مجید کی آیات جابجا دیواروں پر سونے کے
حروف میں کندہ تھیں۔ اس محل سے ملحقہ بڑاسا باغ غیر معمولی جانوروں اور پرندوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے گھڑسوار فوجی کی حیثیت سے ایک پالتو جانور بندر باندھا تھا اور اس بندر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے 30 نوکروں کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس نے 791 میں تباہ کن زلزلے کے بعد تبریز کو دوبارہ تعمیر کروایا بلاشبہ عباسی خلفاء میں ملکہ زبیدہ جیسی نستعلیق خاتون کا کوئی ثانی نہیں تھا جس میں
خوف ِ خدا کوٹ کوٹ کربھرا ہوا تھا جس نے عرب میںاپنے کارناموں اور انسان دوستی سے اپنا سکہ منوالیا۔ملکہ زبیدہ وفات کے بعداپنی ایک قریبی سہیلی بلقیس کے خواب میں آئی وہ ایک بڑے سے محل میں بڑے جاہ و جلال سے بیٹھی ہوئی تھی اس کے سامنے رنگ برنگے مور ناچ رہے تھے سہیلی نے پوچھا کیسا حال ہے ؟ اس نے مسکرا کر جواب دیا بہت مزے میں ہوں اللہ تعالیٰ نے بہت سی نعمتوں سے سرفرازکررکھا ہے میں آج اسی جنت کے محل میں مقیم ہوں جو میں نے بہلولؒ سے خریدا تھا ( ماخوذ)