Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

جتناتم دباؤگے یہ اتنا ہی ابھرے گا

جتناتم دباؤگے یہ اتنا ہی ابھرے گا

جتناتم دباؤگے یہ اتنا ہی ابھرے گا

جتناتم دباؤگے یہ اتنا ہی ابھرے گا

تحریر:نقاش نائطی
۔ +966562677707

بہت سارے خرافات و رسوم و رواج سے پاک ہمارے گاؤں اسلامی ماحول میں، خلیجی پیٹرول ڈالر کی ریل پیل کے چلتے، دس پندرہ سال قبل سے شروع ہوئی، یہ رسم بےجا، پچاس ساٹھ دوست احباب اور رشتہ دار پر مشتمل شادی کے لئے دلہن دیکھنے جانا، یہ جم غفیر مڈل کلاس عزت دار فیملی والوں کے لئے بہت بڑا اور زبردست مشکل ترین مرحلہ ثابت ہوا کرتا ہے

شادی سے قبل غیر محرم عزت دار گھرانے کی با پردہ لڑکی کو اپنی ماں، موسی بہنوں کے ساتھ، ایک نظر دیکھ،نسبت پکی کرنا، یقینا انسانی سمجھ میں آنے والا، ایک حد تک اچھا عمل ہے۔ لیکن نکاح سے قبل ہونے والی بیوی کو، دیکھنے کے بہانے، دور دور کے رشتہ دار، جوان شادی شدہ یا کنوارے دوست احباب کو ساتھ لئے، باپردہ باشرع اجنبی لڑکی کے گھر یوں دھاوا بولنا،دین اسلام یااسلامی معاشرے کا کونسا اچھا عمل ھے؟

ایک دو تین چار رشتہ داروں کے ساتھ لڑکی دیکھنے جانا، الگ بات، پچاس سو دوست احباب و رشتہ دار پر مشتمل اتنے بڑے ھجوم کے ساتھ لڑکی کو دیکھنے جانا، اور ساتھ لے گئے، مختلف پنجابی سوٹ اور ساڑیاں بدل بدل کر،پہنوا کر،دیکھنا اور ہونے والی دلہن کو اتنے بڑے جم غفیر کے سامنے کسی فلمی ماڈل کی طرح کیٹ واک چلوا کے،اس کی دید کرنا، ہونے والی بیوی کو انگوٹھی پہناتے، مختلف زاویوں والے پوس عکس بند کروانا، کچھ کھلاتے پلاتے فوٹو سیش کروانا، کہاں تک ،اسلامی نقطہ نظر سے جائز ہے۔
علماء کرام کی بہتات والے گاوں کے ہر مرد و نساء کو اسکا علم و ادراک رہیگا ہی۔ ننانوے فیصد لڑکی پسند پڑیگی یہ تصور کر اتنے بڑے جم غفیر کے ساتھ باپردہ نوبیاہتا، ہونے والی اپنی دلہن کو، سب کے سامنے ایک فلمی ماڈل کی طرح اس نوع فوٹو سیشن کے ساتھ شادی شدہ زندگی کی شروعات بابرکت یا خیرکامعاملہ کیا ہو سکتی ہے؟ عموما ایسے جم غفیر والے، لڑکی دیکھنے آئے ھجوم کے لئے چاء پانی کے نام سے،

مرغن بریانی کھان پان اخراجات سے بھی زیادہ قیمت خرچ کر، مختلف اقسام کے اسنیک و مٹھائیاں، چکن تیتر فرائی و مختلف مقامی کھانوں و مشروبات کی ایک لمبی فہرست، متوسط گھرانے والے عزت دار لڑکی کے والدین کو، لڑکی کی شادی سے قبل کمر توڑنے کے مترادف عمل ہو اکرتا ہے۔ایسی کئی مثالیں گاؤں وطن میں سابقہ کچھ سالوں دیکھی گئی ہیں عزت دار والدین نے پچیس پچاس ہزار روپئیے بیٹی بیاہنے کے چکر میں قرض لیکر منگنی کی رسوم ادا کرتے اتنے سارے مہمانوں کے نخرے، براداشت کئے اور انگوٹھی پہننا اتنے سارے فوٹو سیشن کے دو دن کے بعد، کسی رشتہ دار کے توسط یہ کہلا بھیجا گیا ہے

کہ “لڑکا جب سے لڑکی کو دیکھ کر آیا ہے گم سم سا رہتا ہے اسکے کے کسی دوست کی کہی (لڑکی کے بارے میں منفی) بات سے وہ پریشان ہے، رشتہ دارروں نے اسے سمجھایا کہ ابھی تو شادی بھی نہیں ہوئی ہے، زندگی بھر ساتھ رہنے کا معاملہ ہے، اس لئے پسند نہیں تو ابھی سے کہہ دے، بعد میں اس بیچاری کی زندگی خراب کرنے سے اچھا ہے ہم ابھی منگنی تڑوادیتے ہیں”، کہتے ہوئے کنواری لڑکی پر منگنی ٹوڑنے کا عذاب توڑتے وقت بھی، لڑکےکو ہی معصوم و بےقصور بتانے اور جتانے کی کوشش کرتے پائے جاتے ہیں۔
پچیس سال پہلے ہمارے ایک معمر باعزت متمول گھرانے کے بزرگ کی بچی کے ساتھ ایسا ہی واقعہ سرزد ہونے پر،مقامی نقش نوائط اخبار میں، اس آخبار کے طنز و مزاح والے دائمی کالم “گڑگڑی میراں کی بیٹی کی منگنی” میں بزبان نائطی اس واقعہ کی منظر کشی ہم نے کی تھی۔ نقش نوائط اخبارکے پاس اگر وہ مضمون محفوظ ہےتو، آج بھی موقع کے لحاظ سے اسے دوبارہ طبع کیا جاسکتا یے۔

اس بات کا ہمیں ادراک ہے کہ ملک کے اور حصوں آبادیوں کے مقابلے یہاں ہمارے علاقے میں، شادی کی مختلف غیر ضروری رسوم سے ایک حد تک پاک، ہمارا اہل نائط معاشرہ ہے، پھر بھی،لڑکی دیکھنے پچاس ساٹھ جوانوں پر مشتمل مرد و نساء کا ایک جم غفیر، بعد کرونا وبا، بے روزگاری کے ماحول میں پہلے سے معاشی ابتری کا شکار متوسط طبقہ پر، ایسے ظلم عظیم سے اجتناب از حد ضروری ہے۔
چونکہ ہمارا معاشرہ آپسی رشتہ داری پر منحصر معاشرہ ہےاور خلیج کے ریگزاروں کی اسکول چھٹیوں کی نسبت سے، مخصوص ایام ایک ساتھ کثرت سے شادی بیاہ طہ پایا کرتے ہیں۔ اسلئے کچھ قریبی رشتہ دار ان ایام ہونے والی کچھ شادیوں کو، آپسی تفاہم سے، کچھ آگے کچھ پیچھے کرتے ہوئے، ایک ہی محفل کئی کئی نکاح،ساتھ ساتھ کرتے ہوئے، مرد و نساء کے لئے جدا جدا بہتر انداز مشترکہ ولیمہ،منعقد کرتے ہوئے، بہت سے باعزت متوسط گھرانوں کو بیٹی بیاہی قرض سے آمان دلائی جاسکتی ہے ۔

اس کے لئے متوسط طبقہ سے زیادہ مالدار تونگر طبقہ ایسی اجتماعی شادیاں کرنا شروع کریں گےتو، متوسط طبقہ کے عزت دار لوگوں کے لئے ایک بہترین مثال پیش کرتے ہوئے، ان میں اجتماعی شادی کےرجحان کو بڑھاوا دینے ممد و مددگار ہوسکتا ہے۔ ولیمہ میں پیٹ بھر مقامی مرغن غذا یقینا ضروری ہے لیکن فائیو اسٹار کچن سے، نت نئے اقسام کے مرغن کھانوں پر مشتمل پر تعیش دکھاوے کے کھانے پروسنے کا تقابل،

متوسط مسلم معاشرہ متحمل نہیں کرسکتا۔ ایسے میں اپنی خاندانی ساکھ کی بقاء کے لئے، قرضدار ہو، بیٹیوں کی شادی کا اصراف کرنے پر متوسط طبقہ کو مجبور کرنا، یقینا پورے معاشرے کو عذاب الہی کی چپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اس لئے اس سمت علماء کرام کی نہں عن المنکر کمیٹی، عوام عمل کرے نہ کرے، انہیں انکا آگہی مشن جاری ہی رکھنا چاہئیے۔ مقاطعہ نہ صحیح علماء حق کے ایک کثیر طبقہ کو، بعض صاحب ثروت کے ضیاع والی محافل سے ماورائیت، انہیں معاشرے میں خجل کرسکتی ہے۔اور اس بے جا دکھاوے والے اصراف سے بچنے انہیں مائل کرسکتی یے۔ وما علینا الا البلاغ۔

Exit mobile version